جمعه, اکتوبر 4, 2024
Homeآرٹیکلزبلوچ طلبا کے سوالات، مرکزی قائدین کی خاموشی، مایوسی اور ناامیدی

بلوچ طلبا کے سوالات، مرکزی قائدین کی خاموشی، مایوسی اور ناامیدی

تحریر: اشفاق بلوچ
ہمگام کالم:
بلوچ قومی تحریک روز اوّل سے لے کر آج تک مختلف نشیب وفراز سے گزر رہی ہے۔ تنقید برائے اصلاح، تنقید برائے تنقید، تحریر برائے تخریب، تحریر برائے تعمیر، اظہار برائے انتشار، اختلافات برائے اختلافات اور اختلافات برائے بہتری جیسے عمل سے نبرد آزما ہے۔ جس کی وجہ سے بلوچ قومی تحریک کو مختلف نوعیت کے نقصانات اور  فائدے ملے ہیں۔
اس عمل میں نقصان اور فائدے کا دارومدار سوچ اور ارادے پر ہوتا ہے کہ کون سا عمل کس نیت سے کیا جا رہا ہے۔ اس میں اصلاحی سوچ و شعور کتنا شامل ہے۔ اگر کوئی بھی عمل اصلاح اور بہتری کے لیے کیا جائے تو اس عمل سے یقیناً تحریک کو فائدہ ہو گا۔
نقصان اور فائدے بھی اپنی نوعیت کے مطابق اثرانداز ہوتے ہیں۔ کبھی کسی عمل کا وقتی طور پر نقصان تو ہوتا ہے لیکن آنے والے لمبے عرصے کے لیے مفید تر ثابت ہوتا ہے اور کبھی اِس عمل کا نتیجہ اس کے برعکس ہوتا ہے۔
تنقیدی نقطہ نظر کے جب ہم مثبت پہلوؤں سے ناواقف ہوتے ہیں تو ہم مایوسی اور ناامیدی کی وادی میں کھو جاتے ہیں جہاں سے نکلنے میں شاید ہمیں ایک عرصہ لگے اور تب تک بہت دیر ہو چکی ہو اور پھر پشیمانی کے سوا کسی کو کچھ بھی میسر نہ رہے۔
کسی بھی تنظیم یا پارٹی میں اس کی کمزوریوں، غلطیوں اور کوتاہیوں پر بات کرنا دراصل اُس کو آگے لے جانے اور اُس میں اصلاحات لانے کا واضح ثبوت ہے۔ تنقید تب ہی کی جاتی ہے جب آپ کوئی بہتری لانے کے خواہاں ہوتے ہیں تو آپ اپنے اور ادارے کی بہتری کے لیے تنقید کو خندہ پیشانی کے ساتھ خوش آمدید کہتے ہیں۔ لیکن اگر آپ واقعی ادارے کے ساتھ مخلص ہیں، اگر نہیں تو اِس عمل کو ایک سازش قرار دے کر نظر انداز کرتے ہیں۔
بلوچ قومی تحریک اور بلوچ طلبا سیاست میں بدقسمتی سے تنقید کو صرف دوسروں کے لیے بہتر سمجھا جاتا ہے لیکن اپنے لیے صرف الفاظ کی حد تک قابل قبول ہوتا ہے۔
اگر آپ کسی تحریک، پارٹی اور تنظیم سے وابستہ ہیں تو دوسروں پر بےرحم تنقید کریں، خواہ اِس عمل میں آپ کی نیت کچھ بھی کیوں نہ ہو، لیکن جس تحریک سے آپ وابستہ ہیں اُس پر لب کشائی کرنا ایک جرم قرار دیا جاتا ہے۔ خواہ آپ کی نیت اور ارادہ بہتری کے لیے کیوں نہ ہو۔
تحریک اور تنظیموں میں اختلافات اور تضادات کا موجود ہونا بذات خود شفافیت کا عمل ہے۔ ان اختلافات اور تضادات کی جانچ پڑتال کرنا اور ان کو بروقت حل کرنا اُس تحریک اور تنظیم کی لیڈر شپ کی پختہ خیالی اور قابلیت کو ظاہر کرتا ہے جو اُسے بروقت حل کر کے ایک بڑے بحران سے تحریک کو بچا لیتا ہے۔ اکثر اوقات بلوچ قومی تاریخ میں دیکھا گیا ہے کہ ایسے مسائل کا عارضی حل نکال لیا جاتا ہے۔ جس سے کچھ عرصے کے لیے مسئلہ تو ٹل جاتا ہے لیکن اس کا کوئی مستقل حل نہیں ہوتا۔ جس کی وجہ سے کچھ عرصے بعد ایسے مسئلے پھر سر اٹھاتے ہیں۔
کسی بھی سیاسی کارکن کو یہ حق ہے کہ وہ اپنے ادارے اور اس سے وابستہ لوگوں پر تنقید کرے۔ یہ تنقید تنظیمی امور، کارکردگی، پالیسیز، سیاسی رویہ، قول و فعل اور مختلف عمل پر  کیا جا سکتا ہے اور اس کے لیے پلیٹ فارم موجود ہے جہاں تنقید کی جا سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی تنظیم سے منسلک لوگوں کی کارکردگی پر تنظیم کے ہر فرد کے ساتھ بات اور بحث کی جا سکتی ہے جو ہر ممبر کا آئینی اور جمہوری حق ہے جس سے کسی بھی حالت میں اُسے دستبردار نہیں کیا جا سکتا۔
اگر بلوچ قومی تحریک یا بلوچ طلبا سیاست میں کسی فرد کو  یہ حقوق میسر نہ ہوں یا اُسے بولنے کا موقع نہ دیا جائے تو میرے خیال میں وہ اپنا مسئلہ بلوچ قوم کے سامنے رکھ سکتا ہے۔ میرے خیال میں بلوچ قوم کے سامنے اُس سے وابستہ کسی بھی مسئلے پر اپنا تنقیدی نقطہ نظر رکھنا غلط نہیں بلکہ ایک احتسابی عمل ہے۔
 اسی طرح میں تنظیم میں رہ کر تنظیمی کمزوریوں اور غلطیوں پر تنقید کرتا رہا ہوں جس کی وجہ سے اختلاف رائے قائم ہوا۔ بہت سے تنظیمی سنگتوں کے ساتھ جن کا نوعیت  عمل اور کارکردگی کے لحاظ مختلف اوقات میں مختلف ہوا کرتا تھا، اس کا ہمیشہ سے یہی مقصد رہا ہے کہ ادارے میں موجود مخلص اور محنتی کارکنان کو کبھی بھی نظرانداز نہ کیا جائے بلکہ ان کو فرنٹ لائن پر لایا جائے۔ یہ نہ دیکھا جائے کہ وہ کس کا بندہ ہے یا کس کا بندہ نہیں ہے۔ کیونکہ جب مخلص، ذہین اور صلاحیت سے بھرپور طلبا کو نظرانداز کیا جاتا ہے تو اصولی طور پر اس میں مایوسی اور نہ امیدی جنم لیتی ہے جو کہ ہمارے لیے زوال کے اسباب بنتے ہیں۔
آج سے تقریباً چھ مہینے پہلے جب ہماری معطلی کا نوٹیفیکیشن شائع ہوا۔ طلبا نے اس کے خلاف آواز اٹھائی تو طلبا کو مختلف جوابات دیے گئے اور ایک مسئلے کو جواز بنا کر میری معطلی کا کہا گیا۔ جس کو میں نے رد کر دیا اور مسلسل اس کے خلاف آواز بلند کرتا رہا۔ جس کا مجھے خاطرخواہ جواب نہ مل سکا۔
چار مہینے پورے ہونے کے ساتھ ہی قائدین کو چاہیے تھا کہ وہ ممبران کو اپنے اعتماد میں لے کر مسئلے سے جڑے ہر فیصلے کے بارے  میں انھیں آگاہ کرتے۔ لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ جس کی وجہ سے ممبران کے ذہن میں مختلف سوالات جنم لینے لگے۔
کئی دنوں سے ادارے کے بیشتر کارکناں مجھ سے معطلی کی وجہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جس طرح پچھلے کچھ  دنوں  سے اس حوالے سے کئی  آرٹیکلز بھی لکھے گئے ہیں۔ جس طرح میں نے پہلے ہی کہا ہے کہ میں خود اپنی معطلی کے واضح ثبوت کا طلب گار ہوں اور قائدین آج تک مجھے مطمئن نہیں کر پائے ہیں اور نہ کارکنوں کے تحفظات دور کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
حالاں کہ کارکنوں نے نہ ادارے  کی ساخت پر سوال اٹھایا ہے اور نہ اس کے خلاف کوئی پروپیگنڈہ کیا ہے۔ ادارے کے ہر کارکن کو سوال پوچھنے کا حق ہے جو کسی بھی تنظیم کے کارکنوں کا بنیادی حق ہے۔ مگر بلوچ طلبا سیاست میں کارکنوں کو ان کا سیاسی حق نہیں دیا جاتا، یہاں سوال اٹھانا جرم ہے۔
کیا کسی سینیئرممبر کو حق حاصل نہیں کہ وہ تنظیمی فیصلوں اور کاموں میں اپنی تجویزیں پیش کر سکے؟
ان کا تنقیدی جائزہ لے اور سوالات اٹھائے؟
کیا تنظیم میں من پسندی کی کوئی گنجائش ہے؟
اور اس بات کا بخوبی جائزہ لیں کہ جو چند سوالات اٹھائے گئے ہیں، آیا وہ سوالات ادارے  کے اوپر اٹھائے گئے ہیں یا ان کے بعض ممبرز کی کارکردگی پر اٹھائے گئے ہیں اور اگر ممبرز پر سوال اٹھائے ہیں تو ان سوالات کو پوری تنظیم کے ساتھ کیوں جوڑا جا رہا ہے؟
پچھلے ایک ہفتے سے دیکھ رہا ہوں کہ سوشل میڈیا پہ ہمارے مسئلے سے جڑے مختلف قسم کے سوالات پوچھے جا رہے ہیں۔  طلبا ان سوالات کے جوابات کے منتظر ہیں اور ان کو جاننے کا پوار حق بھی ہے کیونکہ تنظیم سب کی ہے۔ لیکن تنظیم کی کابینہ کا ابھی تک کوئی جواب نہیں آیا ہے۔ جس کی وجہ سے طلبا میں ناامیدی اور مایوسی پھیل رہی ہے۔
میں یہاں ایک بات واضح کرنا چاہتا ہوں کہ جب بھی تنقید کی گئی ہے تو وہ تنقید ادارے سے منسلک کارکنان کی کارکردگی، سیاسی رویہ، ادارے سے جڑے افراد پر ہوئی ہے جس کا مقصد صرف اور صرف ادارے کی بہتری ہوا ہے۔ اگر کسی فرد پر تنقید کی جائے تو اسے ادارے سے جوڑنا سمجھ سے بالاتر ہے۔
اداروں کی بہتری کے لیے اور سیاسی جمود کو توڑنے کے لیے ہمیں تنقیدی اور خود تنقیدی کے عمل کو پروان چڑھانا ہو گا۔
جب ہم کسی بھی عظیم جدوجہد کا حصہ ہوتے ہیں تو اس سے جڑا ہر مسئلہ ہمارے لیے نہایت ہی اہمیت کا حامل ہے۔
خود تنقیدی کے بغیر کوئی بھی فکری عمل نامکمل ہے۔ اس سے انسان اپنی ذہنی اور تخلیقی صلاحتیوں کو سمجھنے کے قابل ہوتا ہے۔
بلوچ قومی تحریک اور بلوچ طلبا سیاست سے جُڑے ہر فرد کے لیے ادارہ انتہائی عظیم اور اہمیت کا حامل ہے۔ اس کی بہتری کے لیے تنقیدی اور اصلاحی نقطہ نظر رکھنا ہر کارکن کے لیے انتہائی لازمی ہے۔ کیونکہ حالات اور واقعات کا تنقیدی جائزہ لیے بغیر وہ اُن کی پیچیدگیوں کو سمجھنے سے قاصر رہیں گے۔
یہ بھی پڑھیں

فیچرز