کوئٹہ (ھمگام نیوز) بلوچ جبری لاپتہ افراد کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 4980 ہوگئے اظہار یکجہتی کرنے والوں میں عوامی نیشنل پارٹی کے سینٹرل کمیٹی کے ممبر شمس جلال زئی نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ کیمپ آکر اظہار یکجہتی کی۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز تنظیم وی بی ایم پی کی وائس چیرمین ماما قدیر بلوچ نے اظہار یکجہتی کرنے والوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ عوام کے ساتھ پاکستانی فوج خفیہ اداروں کی اس وحشیانہ سلوک نسل کشی کا ذمہدار فوج خفیہ ادارے ایف سی اور سی ٹی ڈی ہی ہیں۔
انھوں نے کہاکہ مرکزی اور صوبائی کھٹ پتلی حکومتیں، بے حس ہیں ، سول سوسائٹی ، ذرائع ابلاغ، اعلٰی عدلیہ ،مذہبی حلقے بھی بلوچ نسل کشی میں فوج سی ٹی ڈی اور خفیہ ایجنسیز کے جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ کیونکہ آئین قانون فوج کے ماتحت ہیں۔
انھوں نے کہاکہ درصل بات یہ ہے کہ بلوچون کا قاتل دشمن صرف فوج یا اسکے ذیلی ادارے ہی نہیں، بلکہ ریاست پاکستان کے تمام ادارے ہیں۔ بلوچ نسل کشی پر اقوام متحدہ کی خاموشی کا جہاں تک تعلق ہے، تو اسکی وجہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ عملاً ویٹو پاور کے حامل ان پانچ طاقتوں کے ہاتھوں یرغمال ہے، جو سکیورٹی کونسل کے مستقل ممبر ہیں ۔ وہ انکی منشاومفاد کے برخلاف کوئی اقدام نہیں اٹھا سکتا ۔
ماما نے کہاکہ جمہوریت آزادی سیکولزازم اور انسانیت کے چیمپین یہ ریاستیں اپنے ریاستی مفادات کے اسیر ہیں۔ جہاں ان کے اپنے مفادات پر ضرب پڑتی ہے ،تو وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں انہیں نظر آتی ہیں۔ بلوچ نسل کشی جبری گمشدگیاں مسخ نعشیں اور فوجی آپریشن کے باعث گھروں سے جبری بیدخلیوں جیسے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر جمہوریت انسانیت کے یہ چیمپین ممالک اس لئے خاموش ہیں کہ پاکستان انکا پرانا آلہ کار ہے ۔ جسے وہ اپنے سامراجی مقاصد کے لئے شائد کچھ وقت مزید زندہ رکھنا چاہتے ہیں۔ بیشک بلوچ جبری لاپتہ افراد کے لواحقین عالمی ضمیر کو جگانے اقوام متحدہ یورپی یونین اور اپنے ہمسایہ ممالک سمیت عالمی اداروں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش ضرور کرینگے۔
ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ ریاست کے لیے قانون پاکستان حکومت بناتی ہے، جبکہ فوج اور دیگر ادارے ان قوانین پالسیوں پر عمل درآمد کرنے کے پابند ہوتے ہیں۔ اسی طرح کسے بھی معاشرے میں سول سوسائٹی، ذرائع ابلاغ کا ایک اہم کردار ہوتا ہے۔ پاکستانی فوج اور خفیہ اداروں کی بلوچ نسل کش پالسیوں کی پردہ پوشی اور انکے جرائم سے چم پوشی کرکے یہ ادارے اُن سے تعاون کرتے ہیں۔