لندن( ہمگام نیوز ) بلوچ رہنماء میر جاوید مینگل نے کہا ہیکہ کہ کراچی میں انسانی حقوق کی خاتون کارکن سبین محمود کی ریاستی اداروں کے ہاتھوں قتل بلوچ لاپتہ افراد کے مسلے کو دبانے اور بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کے پامالی و ریاستی بربریت کو چھپانے اور دنیا کی آنکھوں سے اوجھل رکھنے کی کوشش ہے۔ اس سے قبل لاہور لمز میں طلباء کے جانب سے لاپتہ فراد کے متعلق منعقدہ تقریب کوخفیہ اداروں نے روکا اور اب سبین محمود کو بھی گزشتہ کئی دنوں سے جان سے مارنے کی دھمکی دی جارہی تھی کہ بلوچ لاپتہ افراد کے بارے میں پرگرام کرنے سے باز آو یا پھر موت کے لئے تیار ہوجاو لیکن سبین نے حق و سچ کی حصول کے لئے جام شہادت نوش کی لیکن اپنی موقف سے دستبردار نہیں ہوئی۔ سبین محمود کو کراچی میں لاپتہ افراد کے متعلق سیمینار منعقد کرنے اور ماما قدیر بلوچ، فرزانہ مجید و دیگر بلوچ دوست دانشوروں اور صافیوں کو مدعو کرنے اور لوگوں کو بلوچستان میں ریاست کے اصل چہرے کو دیکھانے کے جرم کی پاداش میں شہید کردیا گیا ہے۔ بلوچ قوم سبین محمود کو بلوچ قوم اور تحریک سے ہمدردی اور بلوچ قوم کے لئے آواز اْٹھانے کی جرم میں ایجنسیوں کے ہاتھوں ظلم کا نشانہ بننے پر خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے قومی شہید کا اعزاز دیتی ہیں۔ میر جاوید مینگل نے کہا کہ بلوچ مسلے پر بات کرنا ایجنسیوں کے نزدیک بہت بڑا گناہ ہے اور اس گناہ کی سزا اس سے قبل اینکرپرسن حامد میر اور اب انسانی حقوق کی کارکن سبین محمود بھگت چکی ہیں۔انہوں نے مزید کہا ہیکہ بلوچ آزادی پسندوں سے مذاکرات کی شوشا ایک ریاستی ڈھونگ ہے نام نہاد صوبائی حکومت مذاق رات کی پیشکش کررہی ہیں انہوں نے کہا کہ بلوچ قوم کسی ریاستی مذاکرات کا حصہ نہیں بنیں گے بلکہ آزادی سے کم کسی چیز پر بات نہیں ہوسکتا۔ میر جاوید مینگل نے کہا کہ بات چیت سے بلوچستان کے مسلے کو حل کرنے اور آزادی پسند قوتوں کو مذاکرات کی دعوت دینے والے بلوچ قوم کی حقوق کے بات کرنے والی انسانی حقوق کی کارکنوں اور بلوچ تحریک کے لئے ہمدردی رکھنے والوں کو برداشت نہیں کرسکتی پھر اْن کا بلوچ قوم میں سوچ اور رویہ کیسا ہوگا۔ میر جاوید مینگل نے کہا ہیکہ عالمی قوتیں اور انسانی حقوق کی تنظیمیں سبین محمود کی ایجنسیوں کے ہاتھوں قتل اور بلوچستان میں جاری بربریت کا نوٹس لیں