اسلام آباد (همگام نیوز) بلوچ نسل کشی کے خلاف اسلام آباد میں جاری بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنماوں نے آج پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ نسل کشی کے خلاف بلوچ یکجہتی کمیٹی کے اس تحریک کا آج 41 واں دن ہے اور گزشتہ 12 دنوں سے ہم نیشنل پریس کلب، اسلام آباد کے سامنے احتجاجی دھرنے کی شکل میں موجود ہیں۔ آپ صحافی حضرات، اس بات کی تاحیات گواہ رہیں گے کہ کس طرح ہمارا پر امن لانگ مارچ( جو اس پورے دورانیہ میں ایک لمحہ کے لیے بھی پرتشدد نہیں ہوا) بلوچستان سے ہوتا ہوا جیسے ہی اسلام آباد میں داخل ہوتا ہے، تو اسلام آباد پولیس کی جانب سے اس پر قہر برسائے جاتے ہیں۔
تین دن تک ہم اسلام آباد میں ریاستی تشدد، گرفتاری اور جیلوں کا سامنا کررہے تھے اور اس لانگ مارچ میں شامل درجنوں بزرگ، خواتین اور بچے ان شدید یخ بستہ راتوں میں واٹر کینن اور لاٹھیوں کا سامنا کررہے تھے۔ ہم سمجھتے ہیں یہ صرف لاٹھیاں اور واٹر کینن نہیں بلکہ ریاست کی بلوچوں سے واضح نفرت کا اظہار تھا۔ ہم تمام تر مظالم اور بربریت کے باوجود اپنے پرامن جدوجہد سے پیچھے نہیں ہٹے اور نہ ہی ہمارے حوصلے کمزور ہوئے۔
بلکہ ہم اس سے زیادہ حوصلہ اور ہمت کے ساتھ جیلوں سے رہائی کے بعد اسلام آباد پریس کلب کے سامنے پر امن دھرنے میں بیٹھ گئے۔ انہوں نے کہا کہ آج نیشنل پریس کلب، اسلام آباد کے سامنے ہمارے دھرنے کا بارہواں دن ہے۔ ہم اسلام آباد پریس کلب کے سامنے دھرنا دیے ہوئے ہیں اور اس وقت ہمارے ساتھ سو سے زائد جبری گمشدگی کے شکار افراد کے لواحقین موجود ہیں اور اس کے ساتھ ماروائے عدالت قتل کیے گئے افراد کے لواحقین بھی اس دھرنے میں شریک ہیں۔ ہم نے اسی دھرنے میں پریس کانفرنس کے ذریعے ریاست کے سامنے اپنے مطالبات واضح طور پر رکھے ہیں اور ریاست کو سات دن کا وقت دیا کہ وہ آئیں اور ہمارے ساتھ مذاکرات کریں ۔
لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ ان سات دنوں میں مذاکرات تو دور کی بات ہے اس ریاست نے غیر ذمہ داری، غیر سنجیدگی اور فاشزم کی انتہائی شرمناک مثالیں قائم کی ہیں۔ جبکہ ہم شروع دن سے مکمل طور پر پر امن رہے ہیں، جس کی گواہی پوری اسلام آباد کی عوام اور صحافی دیں گے۔
لیکن ریاست اس پورے دورانیے میں ایک دن بھی پر امن نہیں رہا ہے، سب سے پہلے پولیس کی جانب سے ہمارے دھرنا جاہ کو خاردار تاروں کے اندر بند کیا گیا۔ جو صحافی حضرات یہاں موجود ہیں، اس کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں اور یہاں ان خاردار تاروں کے ساتھ بھاری نفری بھی تعینات رہتی ہے جو مسلسل ہمیں ہراساں کررہی ہے۔
جبکہ ایک رات ان پولیس والوں کی موجودگی میں ایک ویگو گاڑی آئی جس میں سوار نقاب پوش مسلح افراد نے ہمارے پر امن شرکاءپر بندوقیں تان کر انہیں ہراساں کیا، دھمکایا اور ہمارے دھرنے کے ساونڈ سسٹم کو اٹھاکر اپنے ساتھ لے گئے اور اس کے دو دن بعد جب ہم اپنے دھرنے کے مقام سے سیمینار کا انعقاد کرنے جا رہے تھے تو اس دن پولیس والوں نے دوبارہ ہمارے ساونڈ سسٹم کو چھیننے کی کوشش کی جسے ہمارے شرکاءنے ناکام بنایا۔
یہاں ہمارے دھرنے میں آنے والا ہر شہری اس بات کا گواہ ہے کہ ریاست کی جانب سے ہمارے پر امن مظاہرین کے خلاف لیے گیے اقدامات کتنے پر تشدد اور جارحانہ ہیں، یہاں تک جو بھی شہری ہمارے لیے کمبل یا کھانے پینے کی اشیاءلے آتے ہیں وہ ان چیزوں کو بھی اندر آنے نہیں چھوڑ رہے ہیں اور انہیں چیک کرنے کے بہانے ہمیں اور ان شہریوں کی حددرجہ تذلیل کررہے ہیں۔ لیکن جب ہم ان پولیس والوں سے وجوہات دریافت کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ ہم سے انتہائی بدتمیزی سے پیش آتے ہیں اور ہمیں مختلف طریقوں سے ہراساں کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ریاست کے پر تشدد رویے اور غیر سنجیدگی کی تمام ناقابل تردید ثبوت ویڈیوز کی صورت ہمارے پاس موجود ہیں اور آپ صحافی حضرات، سیاسی ورکر اور اسلام آباد کے شہری اس کے گواہ بھی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے پچھلے پریس کانفرنس میں آپ کے توسط سے ریاست کے سامنے اپنے مطالبات رکھے تھے۔ ہمارے مطالبات میں سرفہرست یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی ورکنگ گروپ کی سربرائی میں بلوچستان میں انسانی حقوق کے پامالیوں اور بلوچ نسل کشی کے حوالے سے تحقیقات کرنے کے لیے ایک فیکٹ فائنڈینگ مشن بلوچستان میں بھیجی جائے اور اسی گروپ کی موجودگی میں بلوچستان میں جبری گمشدگیوں، ماورائے عدالت قتل اور بلوچ نسل کشی کے خاتمے کے لیے ایک معاہدے پر دستخط کیا جائے۔
ہمارے ان مطالبات کو لیکر میڈیا کےذریعے ابہام پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ہمارے پاس اپنے ان مطالبات کے حوالے سے مکمل جائز دلیل موجود ہیں اور ہم اپنے ان مطالبات سے کسی صورت بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ریاست کے فوج اور خفیہ ادارے گزشتہ ستر سالوں سے براہِ راست بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں اور بلوچ نسل کشی میں ملوث ہیں۔ تو ان 75 سالوں میں ریاست کے باقی ادارے پارلیمنٹ، عدلیہ اور انتظامیہ نے انسانی حقوق کی پامالیوں اور بلوچ نسل کشی کے روکنے میں کیا کردار ادا کیا تھا؟
ان 75سالوں میں متعدد حکمرانوں نے بلوچستان میں ریاستی جبر کا اعتراف کیا اور اس پر معافیاں بھی مانگی ہیں لیکن بلوچ نسل کشی کا سلسلہ نہیں رکا۔ بلکہ دن بہ دن اس میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ جبکہ اس نسل کشی کے خلاف کم از کم گزشتہ دو دہائیوں سے بلوچ تسلسل کے ساتھ سراپا احتجاج ہیں، کبھی لانگ مارچ، کبھی مظاہرے، کبھی ہڑتال ، کبھی دھرنا اور گزشتہ 14/15سالوں سےجبری گمشدگیوں کے خلاف وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا کیمپ بدستور جاری ہے۔ ان دو دہائیوں کے دوران متعدد نام نہاد کمیشنز اور کمیٹیاں بنائی گئی ہیں لیکن بلوچ نسل کشی اور بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیاں بند نہیں ہوئے اور دو ہائیوں کے دوران بلوچوں نے اس ریاست کا کوئی بھی دروازہ خالی نہیں چھوڑا، سپریم کورٹ سے پارلیمنٹ تک ہر در و دروازے پر دستک دیے، اپیل کی ، قانونی و آئینی طریقہ کار اپنائے لیکن یہ ریاست اپنی پرتشدد رویوں کو تبدیل کرنے کے لیے تیار نہیں۔ تو اس صورتحال میں ہم اقوامِ متحدہ سے اپیل نہیں کریں تو کس سے کریں؟
آپ ہمیں بتائیے ہم کون سا طریقہ کار اختیار کریں، اگر کوئی ایسا طریقہ کار جس سے بلوچ نسل کشی ختم ہوسکتی ہے تو ہمیں بتائیے ہم اختیار کرنے کو تیار ہیں۔ جبکہ دوسری بات یہ ہے کہ پاکستان اقوام متحدہ کا رکن ملک ہے اور یو۔ این ہیومن رائٹس چارٹر پر پاکستان کے بحیثیتِ ریاست دستخط موجود ہیں۔
یو۔ این ہیومن رائٹس کے چارٹر کے مطابق ہر شہری کے انسانی حقوق کی تحفظ کی مکمل ذمہ داری ریاست کی ہے لیکن یہاں ریاست خود اپنے شہریوں کے انسانی حقوق کو پامال کررہا ہے۔تو اس صورتحال میں ہمارا یو این سے مطالبہ بلکل جائز ، آئینی اور قانونی ہے جس پر ہم قائم ہیں اور اپنے مطالبات کے منظوری تک قائم رہیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے اس لانگ مارچ کو شروع دن سے ریاست کی طرف سے پر تشدد رویے اور پالیسیوں کا سامنا رہا ہے۔ بلوچستان کے جس جس علاقے سے لانگ مارچ گزرا ہے یا لانگ مارچ کی حمایت میں پر امن مظاہرے ہوئے، وہاں ہمارے مارچ کے شرکاءاور علاقہ مکینوں پر جعلی ایف آئی آر درج کیے گئے۔ ہمیں مدد کرنے والے لوگوں کو ہراساں کیا جارہا ہے اور دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔
جبکہ تربت اور کوہلو میں ہمارے پر امن مارچ میں شرکت کرنے والے 44 سرکاری ملازمین کو نوکریوں سے معطل کیا گیا ہے۔ اس مارچ کے آغاز میں جب پشتون رہنما منظور پشتین تربت، شہید فدا چوک پر جاری دھرنے میں اظہارِ یکجہتی کے لیے آرہے تھے تو انہیں بھی راستے میں گرفتار کیا گیا جو آج تک غیر قانونی طور پر پابند سلاسل ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے پر امن دھرنے کے حوالے سے ریاست کا پرتشدد رویہ برقرار تھا کہ دو دن قبل نگراں وزیر اعظم کا پریس کانفرنس کے توسط سے جبری گمشدگی کے شکار افراد کو دہشتگرد کہنا ، لواحقین کی توہین اور مارچ کے شرکاءسے دھمکی آمیزانہ لہجے میں مخاطب ہونا، ہمارے دھرنے کو کوریج دینے والے صحافی حضرات اور ہمارے لیے آواز اٹھانے والے شہریوں کی توہین کرنا، ہمارے پر امن دھرنے پر ایک ریاستی حملہ تھا۔ ہم یہ واضح کرتے چلیں کہ وزیر اعظم کے پریس کانفرنس کے بعد کل صبح سے اسلام آباد پولیس کا رویہ حد سے زیادہ جارحانہ اور فاشزم پر مبنی ہے اور اسلام آباد پولیس ہمارے دوستوں کی پروفائلنگ کررہی ہے اور باقاعدہ واضح الفاظ میں ہمارے دوستوں کو کہا جارہا ہے کہ” ہم آپ کو بعد میں دیکھ لے گے”۔
ریاست کی اس فاشزم کو پوری دنیا اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے اور آپ اس چیز کابھی کا اندازہ لگا لیں کہ یہ ریاستی فورسز یہاں اپنے دارالحکموت میں ہزاروں کیمروں کے سامنے پر امن مظاہرین کے ساتھ اس طرح پیش آرہے ہیں تو بلوچستان، جہان رابطہ کے ذرائع محدود ہیں، ہمارے لوگوں کے ساتھ کس طرح پیش آتے ہونگے؟ انہوں نے کہا کہ جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر کیا کہ ہم نے ریاست کو سات دنوں کا الٹمی میٹم دیا ہوا تھا، جو آج پورا ہوا ہے۔
ان سات دنوں میں ریاست کی غیر سنجیدگی، پرتشدد رویہ اور دھمکی آمیزانہ لہجے کے بارے میں ہم نے تفصیل سے بات کی اور اب ہم اپنے آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کرتے ہیں جو ہماری اس تحریک کا تیسرا فیز ہوگا۔ ہمارے تحریک کے تیسرے فیز میں ہمارا اسلام آباد پریس کلب کے سامنے دھرنا جاری رہے گا، بلوچستان سمیت پاکستان بھر میں احتجاجی مظاہروں، ہڑتال اور دھرنے کا آغاز کیا جائے گا۔
بین الاقوامی دنیا کو آگاہ کرنے کے لیے آئن لائن کانفرنسز کا انعقاد کیا جائے گا اور اگر ریاست کا یہ رویہ جاری رہا تو ہم اپنے دھرنے کو اسلام آباد پریس کلب سے اقوام متحدہ کے اسلام آباد آفس کے سامنے منتقل کریں گے۔ کیونکہ یہاں اسلام آباد پریس کلب کے سامنے اسلام آباد پولیس کے جارحانہ اور پرتشدد رویے سے ہمیں شدید خطرات لاحق ہیں جو آئے دن کسی نہ کسی صورت ہم پر حملہ آور ہوتے ہیں، ہمارے شرکاءکو ہراساں کررہے ہیں۔
جبکہ ہمیں خدشہ ہے کہ اسلام آباد میں ہمارے شرکا کو نقصان پہنچایا جائے گا اس لیے ہم اپنے دھرنے کو اقوام متحدہ کے اسلام آباد آفس کے سامنے منتقل کریں گے اور اقوم متحدہ سے تحفظ مانگیں گے۔ جبکہ ایک بار پھر ہم ریاست کو میڈیا کے توسط سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں کہ ہم اپنے مطالبات پر ریاست سے مذاکرات کے لیے بلکل تیار ہیں، لیکن اس کے لیے ریاست کو اپنے بچگانہ رویے کو تبدیل کرکے ایک ریاست جیسا رویہ اپنانا ہوگا۔ اور اسلام آباد سمیت بلوچستان بھر میں پر امن مظاہرین کے خلاف انتقامی کارائیوں کو بند کرنا پڑے گا، یہ ریاست کی سنجیدگی کا امتحان ہے اور یہیں سنجیدہ رویہ اپنانے کے بعد ریاست آکر ہم سے مذاکرات کرے اور ہم ایک بار پھر واضح الفاظ میں کہتے ہیں اگر ریاست کے رویہ میں تبدیلی نہیں آئی تو ہم بلوچ نسل کشی کے خلاف جاری اس تحریک کو مزید وسعت دیں گے۔ تشدد، گرفتاریاں ، دھمکیاں اور ہراسمنٹ کسی بھی صورت ہمارے راستے کو روک نہیں سکتے ہیں۔
جبکہ ہم اس پریس کانفرنس کے توسط سے بین القوامی برادری سے اپیل کرتے ہیں کہ بلوچ نسل کشی و بلوچستان میں انسانی حقوق کے پامالیوں کے خلاف اور ہمارے اس لانگ مارچ کے حمایت و ہمارے تحفظ کے لیے پوری دنیا میں آواز اٹھائی جائے۔