کوئٹہ (ہمگام نیوز ) بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کی مرکزی کمیٹی کا پہلا اجلاس زیر صدارت چیئرمین سہراب بلوچ منعقد ہوا، اجلاس میں تنظیمی امور اور آئندہ لائحہ عمل کے ایجنڈے زیر بحث رہے اجلاس کا باقاعدہ آغاز شہدائے بلوچستان کی یاد میں دو منٹ کی خاموشی سے ہوئی ۔ چیئرمین سہراب بلوچ نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بی ایس او کی تاریخ قربانیوں کی تاریخ ہے بی ایس او کے نوجوانوں نے بلوچ سماج میں تعلیمی اور سیاسی شعور بیدار کرنے کے لئے ہر طرح کی مصائب و تکالیف کو برداشت کیے لیکن اس کاروان کو رکنے نہیں دیا بلکہ مستقل مزاجی سے بلوچ سماج کو متحرک و منظم کرنے میں کردار ادا کررہے ہیں ۔ ریاست بلوچ نوجوانوں کے سیاسی شعور سے خوفزدہ ہوکر انہیں اپنے طاقت کے زور پر دبانے کی کوشش کررہا ہے بی ایس او آزاد پر پابندی ، بی ایس او کے نوجوانوں کی ماروائے عدالت قتل و گرفتاریاں ریاستی خوف کا بھرپور اظہار ہے ۔ریاست اپنی پوری مشینری کو استعمال میں لاتے ہوئے ایک طرف نوجوانوں اور طلباء کو عوامی سیاست اور بلوچ قوم پرستی سے دور رکھنے کی کوششوں پر عمل پیرا ہے جبکہ دوسری جانب نو آبادیاتی نظام تعلیم کے ذریعے بلوچ طالب علموں کی تحقیقی اور تخلیقی قوت کو ختم کرکے انہیں سیاسی و علمی حوالے سے بانجھ پن کا شکار بنانے کی کوشش کررہا ہے۔
چیئرمین نے کہا کہ بی ایس او آزاد کے نوجوان طالب علم اپنے سماج میں سیاسی شعور پروان چڑھانے کے لئے اپنی تمام تر توجہ تعلیم کے حصول پر رکھ کر تعلیمی اداروں میں تخلیق و تحقیق کی جانب توجہ دیں اور تعلیمی اداروں میں سیاسی ماحول کو پروان چڑھانے کے لئے اپنی صلاحیتوں کو صرف کریں ۔ نوآبادیاتی نظام تعلیم کے اثرات کو زائل کرنے کے لئے سائنسی بنیادوں پر تخلیق و تحقیق ہی بہترین ہتھیار ہے جن کے مثبت استعمال سے ہی ہم نوآبادیاتی نظام تعلیم کو ناکام بنا سکتے ہیں ۔ ہمیں تعلیمی اداروں میں سیاسی بحث و مباحثے کو فروغ دینے کی کوشش کرنی ہوگی کیونکہ سیاسی طاقت سے ہی ہم اپنے منزل کو حاصل کرسکتے ہیں۔ بی ایس او کے نوجوان ہی قوم کی امیدوں کو حقیقت کا روپ دے سکتے ہیں اور یہی نوجوان ہماری امیدوں کا مرکز ہے ہم یہ امید کرتے ہیں کہ بی ایس او کے طالب علم شعوری بنیادوں پر دنیا کی بدلتی ہوئی سیاسی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی تنظیمی پروگرام کو آگے بڑھائیں۔
عالمی سیاسی صورتحال پر نظر ڈالتے ہوئے چیئرمین نے کہا کہ عالمی سطح پر رونماء ہونے والے سیاسی واقعات بلوچستان کو شدید متاثر کرسکتے ہیں اور اس سیاست کے منفی اثرات سے نکلنے کے لئے ہمیں سیاسی سوجھ بوجھ کے ذریعے پالیسیاں مرتب کرنے ہونگے اگر ہم نے سیاسی و شعوری بنیادوں پر پالیسیاں تشکیل نہ دیں تو اسکے نتائج ہمارے لئے سنگین ہونگے جو مستقبل میں ہمارے لئے شدید مشکلات کا باعث ہونگے۔آج عالمی طاقتوں کی آپسی رسہ کشی ایک ایسے مقام پر پہنچ چکی ہے جس کی وجہ سے عالمی سیاست میں بڑی تبدیلوں کے قوی امکان ہے۔ امریکہ کی ایران پر معاشی پابندیوں کے نتیجے میں یورپ اور امریکہ کے خراب تعلقات عالمی سیاست میں ازسر نوصف بندیوں کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ جبکہ امریکہ نے ایران پر سخت ترین پابندیاں عائد کرکے نہ صرف ایران کو شدید معاشی مسائل سے دوچار کردیا ہے جو ایران کو داخلی طور پر بری طرح متاثر کریگا بلکہ مشرقی وسطی اور جنوبی ایشیا کے سیاست میں بھی بڑی تبدیلیوں کا بھی امکان ہے ۔دوسری جانب ایران نے تیل کی آبی گزرکاہ آبنائے ہرمز کو بلاک کرنے کی دھمکی دی ہے اور اس سلسلے میں ایران نے خلیج فارس میں 100سے زائد بحری جنگی جہازوں کے ذریعے جنگی مشقوں کا اہتمام کیا جو مشرقی وسطٰی کے حالات میں سنگینی کا باعث ہوگا۔ جبکہ چین کی اس خطے میں موجودگی موجودہ سنگین حالات اس خطے کے لیے کسی بھی صورت نیک شگون نہیں ہے ۔چیئرمین نے پاکستان کے حالیہ انتخابات پر نظر ڈالتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں حکومت سازی کے نام پر صرف چہرے تبدیل کیے جاتے ہیں پالیسیاں ایک ہی سمت سے آتے ہیں ۔ بلوچستان میں پاکستان کے فوجی آمرانہ دور ہو یا نام نہاد جمہوریت ریاستی بربریت تھمنے کے بجائے شدت اختیار کرتی ہے جبکہ پاکستان کے سیاستدان بارہا بلوچستان کے حوالے اپنے بے بسی کا اظہار کرچکے ہیں ۔بلوچستان کے حالیہ انتخابات میں ریاست نے جس طرح اپنے نمائندوں کو ایک گروہ’’باپ‘‘ کی صورت متحد کرکے ان کو حکومت کرنے کی ذمہ داری دی جارہی ہے وہ بلوچ عوام کی جانب سے مسترد شدہ لوگ ہے جن کے بارے عوام انتہا ئی واضح موقف رکھتے ہیں ان کو حکومت سازی کا موقع فراہم کرنا صرف اور صرف بلوچستان کے استحصال میں ریاستی مفادات کا دفاع منظم طریقے سے کرنے کے لیے ہے ۔بلوچ سیاسی قیادت خطے بدلتی ہوئی صورتحال ،چین کی جانب سے بلوچستان کے وسائل کو چین منتقل کرنے کے عمل میں تیزی لانا اور پاکستان کی اندورونی سیاسی حالات کو بھانپتے ہوئے بلوچ تحریک کے خارجی و داخلی پالیسیوں کو ازسر نو مرتب کریں ۔
تنظیمی امور کے ایجنڈے پر بحث و مباحثے کے بعد آئندہ لائحہ عمل کے ایجنڈے میں تنظیم کو ری آرگنائز کرنے کے لیے تنظیمی ذمہ داریاں وپروگرام ترتیب دیے گئے