چهارشنبه, نوومبر 27, 2024
Homeخبریںبلوچ نیشنل موومنٹ اجلاس اختتام پذیر، پارٹی فعالیت کیلئے دورہ کمیٹیاں تشکیل

بلوچ نیشنل موومنٹ اجلاس اختتام پذیر، پارٹی فعالیت کیلئے دورہ کمیٹیاں تشکیل

کوئٹہ ( ہمگام نیوز) بلوچ نیشنل موومنٹ کی مرکزی کمیٹی کا اجلاس تیسرے روز اختتام پذیرہوا ۔جس میں مرکزی کمیٹی عہدیداروں نے قومی تحریک اورپارٹی پروگرام پر مفصل بحث و مباحثہ کیا ۔اجلاس سے اختتامی خطا ب میں چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا،بلوچ قومی تحریک ایک مکمل سیاسی اور جمہوری تحریک ہے بلوچ قومی تحریک بہترین ارتقائی عمل سے گزر رہا ہے اور مستقبل قریب میں اس کی کامیابی کے امکانات زیادہ ہے ہیں لیکن اس میں زیادہ محنت کرنے کی ضرورت ہے پارٹی کے تمام حصوں کو فعال کرنے کی ضرورت ہے ۔ریاست اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر بلوچ نسل کشی کے عمل میں نئی داستانیں رقم کررہا ہے،روزانہ کی بنیاد پرلوگ اٹھائے جارہے ہیں ،بلوچ فرزند شہید کئے جارہے ہیں ۔یہ بات اظہرمن الشمس ہے کہ تحریک کوبلوچ قوم کی مکمل سپورٹ حاصل ہے ،دشمن کی تمام جبر و دہشت خیزیوں کے باوجوداس حمایت میں کوئی کمی نہیں آئی۔کیونکہ بلوچ قوم نے اپنا رشتہ ریاست کے ساتھ واضح کردیا ہے کہ صرف غلام اور قابض کا رشتہ ہے جس سے نجات کے لئے قوم انمول قربانیوں کی تاریخ رقم کررہا ہے ۔ہم 2003یا 2004سے لے کر اب تک کے دورانیہ کو دیکھتے ہیں تو ہماری کامیابیاں انتہائی حوصلہ افزاء ہیں ۔کیایہ کامیابیاں کسی غیبی قوت یا پہلے سے موجود کمیٹڈ لوگوں کی چھوٹی چھوٹی بڑی کیمپس کی انضمام کا نتیجہ ہے ایسا نہیں بلکہ یہ کامیابیاں اُن عظیم ہستیوں کی بصیرت اور دوررس نگاہوں کی دین ہے جنہوں نے پارٹی اوراداروں کو بنیاد یں فراہم کرکے ہمارے لئے کامیابیوں کے راستے کھول دیئے ۔غلام محمد نے کبھی شخصیت کو جدوجہد کا محور بنانے کی کوشش نہیں کی بلکہ ان کا ماننا تھا کہ بلوچ نیشنل موومنٹ طاقت حاصل کرے گا تویہ قومی پلیٹ فارم بن جائے گا اور اسی مورچے پر قوم اپنی آزادی کی تحریک چلائے گااور تحریک ماضی کے برعکس اپنی تسلسل کو برقرار رکھ پائے گا۔دشمن کی انسانیت سوز مظالم کے باوجودبلوچ قوم کی عزم ،تحریک سے مکمل وابستگی اور سیاسی ادارے اپنی فہم و بصیرت اور اجتماعی فیصلوں سے دشمن کی منصوبوں ،سازشوں کو ناکام بناکر قومی منزل پانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ بلوچ نیشنل موومنٹ کے کیڈراور کارکن بلوچ قوم کے شایان شان ادارہ بنائیں تاکہ تاریخ کے اس اہم موڑ پر اپنی قومی عظمت ،تہذیب و ثقافت ،قومی تشخص ،بے کراں جغرافیہ اور اس کی اہمیت اور منفرد محل ووقوع کے تحفظ اور بقاء کی ذمہ داری کا فریضہ ادا کرسکیں اور اپنے ہائی پروفائل لیڈر اور انمول کارکنوں کی شہادتوں سے وجود میں آنے والے خلاء کی کرب قومی جدوجہد کے روح کو مجروح نہ کرسکے ،ہم ان کی نعم البدل بن جائیں ۔بلوچ نیشنل موومنٹ کی قیام کا مقصدمحض قومی موقف کی اظہار تک محدود نہیں ہے بلکہ تحریک کو ایسی مضبوط بنیادیں فراہم کرنا ہے جہاں ہمیں ناکامیوں کا خطرہ نہ رہے ،ہمیں تسلسل کو ٹوٹنے کا خطرہ نہ رہے ،ہمیں ماضی کے تجربات سے دوچار ہونے کا خطرہ نہ رہے بلکہ میں ورکروں سے یہی کہتا ہوں کہ جب انسان خودشناسی اور خود آگاہی کے مراحل کو طے کرے تو اس کے لئے ہمیشہ ناممکن ،سہل اور آسان ہوجاتی ہے۔ آج قومی تحریک کابھاری بوجھ ہماری کندھوں پر ہے ہمیں مشکلات کے بیچ اپنی کامیابی کے راستوں کی تعین کی ضرورت ہے ۔سیاسی ورکر اور سیاسی کیڈرکا بنیادی کام نہ صرف اپنی بلکہ قوم کو اس کی عظیم طاقت کی پہچان اور اسے روبہ عمل لانے میں ان کی رہنمائی ہے ۔ایسے پیچیدہ اور کھٹن حالات میں ہمیں ذمہ داریوں کوقومی تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے ۔بلوچ قوم نے ایک طاقت ور دشمن کا مقابلے کرتے ہوئے اپنے قابل فرزندوں کی شہادت اورسائل کی نایابی کے باوجود نہ صرف دنیا میں اپنی تحریک کو آرگنائز رکرنے اور قومی مسئلے کو دنیا کے سامنے پیش کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے بلکہ اسے اپنی قومی اور نظریاتی کامیابی سمجھتے ہیں کہ دنیا کے سنجیدہ حلقوں کو بتدریج احساس ہورہا ہے کہ مذہبی شدت پسندی کا مقابلہ اور خطے کے دیگر تنازعات کا حل قومی سوالوں کے حل اور نیشنلزم کے نظریعے میں پنہاں ہے جو بلوچ قومی موقف کی صداقت کی غماز ہے ۔مگر ہمارا قومی دشمن مکمل غیر سیاسی ،غیرجمہوری اور قومی اقدار سے محروم اور جبر کا قائل ہے اور ہر قوم کے ساتھ مسائل صرف بندوق کی نالی سے کرنے پر کاربند ہے۔ اس کے مقابلے میں بلوچ کی جدوجہد ایک قومی اور انقلابی جدوجہدہے جو بین الاقوامی قوانین اور انسانی روایات کا پابند ہے ،اور انہی روایات کی پاسداری کی اعلیٰ مثال بلوچ مسلح دستوں کی دشمن کی گرفتار سپاہیوں کی میدان جنگ میں سرنڈر کے بعد مکمل جنگی قیدی کا درجہ دینا اور سزاء کے بعد باحفاظت رہائی ہے ،مگر ایسے اقدامات کی دشمن سے امید عبث ہے ۔بلوچ قومی جدوجہد کوکچلنے کے لئے دشمن نے پورے بلوچستان کوچوکیوں میں تبدیل کردیا ہے اوراپنی ہی سرزمین پربلوچ کے لئے اپنی سرزمین کو تنگ کردیا ہے۔اس کے باوجودقوم کی عمومی حمایت میں کمی کے بجائے تیزی آئی ہے ۔یہ سیاسی پارٹی پرمنحصر ہے کہ وہ اس حمایت کو کس طرح اپنی طاقت بنانے کے لئے حکمت عملی بناتاہے ۔بلوچ قومی تحریک آزادی میں کتنی پختگی آئی ہے اور بلوچ قوم میں کتنی حمایت حاصل کرچکا ہے اوردوسری قومی جدودجہد میں برسرپیکار تنظیموں اور پارٹیوں میں کتنی ہم آہنگی یا آپسی اعتبار اور اشتراک عمل موجود ہے ۔یہ حقیقت ہے کہ جو آپس میں احترام تعاون اور اعتبارقائم تھا وہ کمزور ہوچکا ہے ،لیکن ہم نے کبھی اسے ہوا دینے کی کوشش کی ہے اور نہ اس میں اضافہ ہماری خواہش اور پالیسی ہے اور نہ ہی ایسا کرکے ہم بلوچ قومی جدوجہد کے تاریخ کے داغ کو اپنے ماتھے پہ سجانے کی غلطی کا ارتکاب کریں گے۔ اس ضمن میں ہماری پالیسی روز اول سے واضح رہی ہے ۔البتہ ہم نے کبھی بھی آپسی اختلافات کو ہوا دیناقومی تحریک کے حق میں مناسب نہیں سمجھابلکہ کوئی دشمن پراگر ایک پتھر پھینکتا ہے یا ایک خلوص نیت سے ایک لفظ بولتا ہے تو ہم اس کی احترام کرتے ہیں،لیکن اشتراک عمل کے لئے بنیادی شرائط لازمی ہیں جن سے روگردانی ہماری پارٹی منشور کے خلاف ہے ۔ہمارادشمن تیزی سے ایک ناکام ریاست بن رہا ہے۔ عدلیہ بھی فورسز کی نگرانی میں چلا گیا ہے۔ ریاستوں کی چاروں ستون پارلیمنٹ ،عدلیہ ،فورسزاور میڈیا یکساں بلوچ کے خلاف ہیں ۔سیاسی پارٹیاں فورسزکو اختیا ر دیتے ہیں کہ بلوچستا ن میں نسل کشی کریں ۔بلوچ بارے میں عدلیہ کی ایک وقت کی لاحاصل سرگرمی دکھانے کا مقصد صرف یہ تھی کہ بلوچ قومی مسئلہ پاکستا ن کا اندرونی مسئلہ ہے اور ریاستی عدلیہ اسے حل کرے گایا بلوچ قوم کو انصاف مل رہا ہے اس سے زیادہ ہرگز نہیں تھا۔آج عدلیہ نے بھی یہی ڈرامہ بندکرکے بلوچ قوم پر واضح کردیا ہے کہ بلوچ کے خلاف ریاست کی مجموعی طاقت استعمال ہورہا ہے صرف ایک ادارہ نہیں ۔بلوچ قوم نے بارہا دنیا پر واضح کردیا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مدد اور جدید ہتھیار دہشت گردی کے بجا ئے بلوچ قوم کے خلاف استعمال ہورہے ہیں ،یہ طالبان یا دیگر انتہاپسندوں کے خلاف استعمال نہیں ہورہے کیونکہ ریاست ان کا خالق ہے فورسزاعلیٰ سطح پر طالبان کی مدد کررہے ہیں یاجب افغانستان میں شمالی اتحاد کے مقابلے میں طالبان کو ہزیمت کا سامنا ہوتا ہے تو خفیہ ایجنسی یہاں کے مدارس سے ہزاروں کی تعداد میں جنگجوطالبان کی مد د کے لئے افغانستان میں بھیج دیتا ہے۔ آج نوبت یہاں تک جاپہنچی ہے کہ ریاست اعلیٰ سرکاری سطح پر اس بات اعتراف کررہا ہے کہ طالبان کو ریاست حکومت کی تعاون حاصل ہے اور وہ ریاست میں موجود ہیں یہاں انہیں جملہ سہولیات میسر ہیں۔ اس کا مطلب صاف ہے دنیادہشت گردی کے خلاف جنگ میں واضح لائن متعین کرنے میں ناکام ہوچکا ہے اور اُس یکسوئی سے محروم ہے جس کی ضرورت ہے۔ ہمیشہ قومی تحریک کوخطے کے حالات سے الگ کرکے دیکھا نہیں جاسکتا بلکہ خطے کے حالات اور ان کی نوعیت ہم پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اس خطے میں ایک طرف ایران ہے جس کی فلسطین ،شام ،یمن اورلبنان میں بہت بڑی پوزیشن ہے اور وہاں سیاسی سیناریو کی تبدیلی کے لئے اس کی رضامندی ضروری ہے ،دوسری طرف سعودی عرب ہے جو وہابی یا سلفی نظریا ت کے ذریعے خطے میں طاقت حاصل کرنے کے لئے بے تحاشا سرمایہ کاری کررہا ہے اور ان گروہوں کی سیاسی مدد کررہا ہے اور یہاں ہم پر مسلط ایٹمی طاقت ہے جو سنی ازم کی نام پر ،طالبان کی شکل میں جو افغانستان میں عمل دخل یا بلوچ سرزمین اور بیش قیمت وسائل کی وجہ سے ان کی ایک اہمیت ہے ان تما م کے درمیان بلوچ اپنی قومی جنگ لڑرہا ہے۔ اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بلوچ صرف فورسزکے خلاف جنگ پر اکتفا کرے یا دنیا کو یہ پیغام بھی دے کہ ہم بحیثیت ایک زندہ قوم کے انسانیت کے خلاف جاری جنگ اور انسانیت کے تذلیل کے مقابلے میں اپنی سرزمین پر یا جہاں تک ہماری قومی طاقت ہے ہم ایسی گروہوں کی نشوونما اورطاقت حاصل کرنے کی اجازت نہیں دیں گے ۔ریاست اور ہمارے مخالفین قومی جنگِ آزادی کومتنازعہ اور بلوچ سماج میں غیر موثربنانے کے لئے اسے پراکسی جنگ کانام دے کراپنے پنجوں کو مضبوط کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں مگرہم دنیا پر واضح کردیناچاہتے ہیں کہ ہماری جدوجہد قومی ہے جبکہ ریاست اوریہاں مفادات کے حامل قوتوں کے پراکسی خواہ کسی بھی شکل او رنام پر ہوں وہ ہماری نظریات سے متصادم ہیں۔ وہ خالص مذہبی انتہاپسندہوں یا ان میں قومی آمیزش شامل ہو۔یہ سب بلوچ قومی جدوجہد کے خلاف ایک صفحے پر ہیں۔ ہمیں اس کا ادراک کی ضرورت ہے اوربلوچ قوم کو اس مخمصے میں نہیں پڑنا چاہئے کہ کون سعودی کے خلاف ،کون ایران کے خلاف ،کون امریکہ اور کون افغانستان کے خلاف جنگ کررہا ہے بلکہ ہمیںیہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ یہ ہمیں کتنی نقصان پہنچارہے ہیں۔ہمیں اس تما م صورت حال کو اپنے مفاد ات اور قومی نظریے کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے جو ہماری قومی تحریک اور اس کی بقاء یا قومی تشخص کے لئے بنیادی سوال کی اہمیت رکھتا ہے ۔ ممکن ہے کہ ہم کسی کو کاؤنٹر کریں تو اس کا براہ راست فائدہ امریکہ کو چلاجائے ممکن ہے کہ کسی کو اپنے مفادات سے متصادم ہونے کی صورت میں کاؤنٹر کریں تو اس کا فائدہ انڈیایاایران کو پہنچے لیکن ہمیں ان سطحی باتوں کے بجائے اپنے طویل المدتی مفادات کو پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس کا مقصد قطعی طورپر یہ نہیں نکلتا ہے کہ ہم اس عمل سے کسی کے پراکسی بن جائیں گے بلکہ ہم اپنی چھوٹی یا بڑی طاقت سے اپنی ہروہ دشمن جو باقاعدہ یا خفیہ طورسے جنگ کررہاہے ہمیں اپنے قومی نظریے یا قومی تحریک کے خلاف گروہوں یا نظریوں کی سدباب کے لئے عمل کے میدان میں بدستور قائم رہنے اور انہیں کاؤنٹر کرنے کی ضرورت ہے۔ ریاست اور اسکی اتحادیوں کے ہماری سرزمین پر گوادر پورٹ ،چین پاکستان اکنامک کوریڈور ،چین کی ملٹری نیول بیس کے علاوہ دیگر قوتوں کی دلچسپی نے قو می مشکلات میں اضافہ کردیا ہے لیکن ہم نے ہمیشہ کہا ہے کہ آج ہمیں دنیا کی مدد و اعانت کی ضرورت ہے اسی طرح دنیا کواس خطے میں پائیدار امن اور ترقی کے لئے اس سے کہیں زیادہ ہماری سرزمین اور قومی آزادی کی ضرورت ہے۔ اس کا احساس دنیا کے لئے بہت ضروری ہے لہٰذا یہ قطعی طورپر ہماری کمزوری نہیں ہونی چاہئے کہ قومی آزادی اور قومی مفادات کے لئے دنیا اور مختلف طاقتوں کی شرائط کو قبول کریں یا ان کی شرائط پر کام کریں ۔قومی آزادی کے جدوجہد میں نشیب و فراز ضرورآتے ہیں مگر ان کے مقابلے میں جو چیز چلتن کی طرح کھڑا رہ سکتا ہے وہ قومی عزم صمیم اورواضح خطوط پر قائم صرف پارٹی ہوسکتا ہے ۔اس کا مطلب یہ ہے سیاسی پارٹی قومی رائے کی تشکیل کرتا ہے۔ آج کوئی امید رکھے کہ کوئی ایک فرد ،ایک شخص یا ہجوم قومی رائے کی تشکیل کرسکتا ہے تو یہ دنیا کی سیاسی ڈاکٹرائن یا سیاسی تھاٹ میں انہونی بات ہوگاکہ ہجوم ایک سیاسی پارٹی کو لائن دے سیاسی پارٹی اس لئے وجود میں آتے ہیں کہ وہ قومی رائے کی تشکیل کرکے قوموں کی تعمیر کرتے ہیں ،وہ نسلوں کی تربیت کرکے تحریک کو اگلی نسلوں تک منتقل کرکے تحریک کو تسلسل دیتے ہیں۔ ہمیں خوش فہمیوں کے بجائے حقائق سے مقابل ہونے کی ضرورت ہے ۔آج پارٹی ورکر کوایک سیاسی ڈاکٹر،سرجن کی حیثیت سے سماجی بیماریوں کی تشخیص اور حل کی ضرورت ہے۔آپ کو ایک قانون دان کی حیثیت سے اپنے قومی موقف کے دفاع کرنے کی ضرورت ہے ۔ آپ کوایک ٹیچر کی حیثیت سے تحریک کی سیاسی جڑوں کو مضبوط کرنے اور سماج میں سیاسی تعلیمات کو عام کرنے کی ضرورت ہے ۔آپ کو تمام قومی سیاست کے پہلوؤں کی احاطہ کرنے کی ضرورت ہے ،اس کا احسا س ہر ورکر میں ہونا چاہئے کہ وہ قوم کی تعمیر و تشکیل کس نہج اور انداز میں کرسکتا ہے۔دوسری، آپ کو اپنی دشمن کی کمزوریوں کی جانکاری حاصل کرکے اس کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ آپ کواپنی قوم کی ایسی سیاسی تربیت کرنے ضرورت ہے کہ قوم دشمن کی تمام تر بربریت کامقابلہ کرسکے ۔قوم ذہنی لحاظ سے مسلح ہوجائے تاکہ وہ دشمن کی تمام حربے خواہ وہ نام نہاد قوم پرستی کے لبادھے میں ہوں یا مذہبی لبادھے میں ہوں ،ان کوناکام کرسکے ۔ان حربوں کی جانکار ی قوم کو فراہم کرنا ہمیشہ سیاسی ورکر کا کام ہوتا ہے ۔سیاسی ورکر اپنے سماج ،اپنے قومی تحریک کی تجزیہ اور تنقیدکے ساتھ ساتھ اسے روزافزوں وسعت دینے کے لئے کن شرائط پر حکمت عملیوں کی تعین کرنی چاہئے آپ کو قومی تشکیل کی خطوط واضح کرنے کی ضرورت ہے ۔ آپ کو آئیڈیل ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں ہے ہماری صفوں میں ڈاکٹر منان بلوچ، اُستاد علی جان ،حاجی رزاق جیسے باعلم ہستی ہو گزرے ہیں وہ ہمارے آئیڈیل ہیں۔میں ایک بات ضرورکہتاہوں جب ہماری سیاسی لیڈر شپ میں سیاسی پختگی نہ ہوتی تو دشمن ہمیں پراکسی یا کرایہ دار فورسز کے ذریعے کچل دیتا۔ قومی آزادی کے جدوجہد میں صرف یہ معیار بن جائے ؟کہ جی دشمن کے خلاف لڑرہا ہے یا ساتھ دے رہا ہے۔۔۔ تومیں سمجھتا ہوں کہ ہم بحیثیت قوم نہ صرف منزل سے ہاتھ دھوبیٹھیں گے بلکہ ہم اپنی کاروان آزادی کو پیچیدگیوں کا شکار بنائیں گے۔ دشمن ہزارہا کوشش کرتا ہے، ایک وقت میں ان کی کوشش تھی کہ پراکسی یا مرسنری مختلف لبادھوں میں سماج میں ضم ہوکر تحریک کے خلاف کام کریں۔ آج تو زیادہ ترریاستی ٹول یاپراکسی ظاہر ہوچکے ہیں۔آج تو سیاسی پارٹی کی سرپرستی میں علی حید ر باقاعدہ ڈیتھ سکواڈکی سربراہی کررہا ہے ،یہی کام کئی ایسے عناصر کررہے ہیں جن کی پہچان اب مشکل نہیں ہے ۔ ہمیں ٹریپ کرنے کی مختلف کوششیں ہوئی ہیں چونکہ پارٹی کے سیاسی قیادت ایک واضح لائن پر کام کررہا ہے تو وہ اپنی تحریک کو ایسی کاؤنٹر انسرجنسی فورسز سے محفوظ رکھ سکتا ہے ،آج بلوچ قوم کی موت وزیست پارٹی پر انحصار کرتا ہے کہ بلوچ قوم اور ریاست کے درمیان خون کی ایسی لکیر کھچ گئی ہے جسے پار کرنا دنیا کی کسی بھی طاقت کے لئے ناممکن ہے ایسی قومی سفر کا آغاز ہوچکا ہے جس میں واپسی کا امکان ظاہرکرناناقابل معافی جرم ہے۔ ہماری سماج کی اپنی پیچیدگیاں ہیں ،ادارے کی پابندیاں عمومی طور اور بالخصوص ہماری اوپری طبقات کے مزاج و مفاد کے خلاف ہے ،وہاں قرابت دار بھی آپس میں چل نہیں سکتے ہیں چہ جائیکہ وہ قومی جدوجہدمیں ایک قومی ادارے کی پابندہوں اشتراک عمل یا اکھٹے کام کرنے کی تصور ان میں بہت کم پائی جاتی ہے ۔ہمارے عسکری تنظیموں کے درمیان تعاون اور تعلقات کی نوعیت ہماری سیاست پر منحصر ہے جس طرح قومی تحریک کو ہر ممکن صورت میں شخصی بنانے اور قومی پارٹیوں کو تضحیک کا نشانے بنانے اور ان کی وجود کی خاتمے سے قوم کو انقلاب اور آزادی کی نویدیں سنائی جاتی ہیں اس نے ہماری مشکلات میں بے شک اضافہ کردیا ہے مگر بلوچ قوم اور بلوچ کے سیاسی ورکروں کے لئے آزادی کی تحریک کی کامیابی کے لئے پارٹی اور شخصیات کے درمیان امتیازاور انتخاب مزید سہل بنادیا ہے۔ ہماری روزاول سے یہی موقف رہا ہے کہ ہم قومی تحریک میں ایک انقلابی معیار کے قائل ہیں یا ہمارامنشور ہمیں اس بات کا پابند کرتا ہے کہ ہم قومی تحریک میں اتحاد اشتراک عمل کے لئے ہمہ وقت تیار ہیں بلکہ اس عمل کو ہم نے بلوچ قوم کے لئے ایک بڑا تحفہ قراردیا تھا۔اس پر ہمارا موقف آج بھی برقرار ہے۔ یہ ایک حقیقت بن چکاہے کہ بلوچ سیاست میں بلوچ نیشنل موومنٹ کا ایک قائدانہ رول رہا ہے ،اور آئندہ بھی رہے گا۔ لہٰذامشکلات جو بھی ہوں ہم ادارے کی تشکیل اور تعمیر ہی میں نجات سمجھتے ہیں ۔دشمن کی روزبڑھتی مظالم اورخطے کی تیزی سے بدلتی صورت حال اور نئی صف بندیوں کے تناظرمیںیہ ہم پر منحصر ہے کہ ایسی مشکل صورت حال میں قومی جدوجہد کو اس کی منطقی منزل تک پہنچانے میں کامیاب ہوجائیں گے ہماری مشکلات میں ہماری اپنی صفوں کی حصہ داری بھی ہے ایک ہی پروگرام اور ایک ہی منشور کے باوجود ہم ٹکڑوں میں بٹے ہوئے ہیں ۔
سینٹرل کمیٹی میں مندرجہ ذیل فیصلے کئے گئے ۔
1:۔مرکزی کمیٹی کے معطل ممبر بانک فریدہ کی سینٹرل کمیٹی سے معطلی کی توثیق سے خالی نشست پر کو ان کی جگہ پرماسٹرکمال اکثریت رائے منتخب کیا گیا۔
2:۔مرکزی کمیٹی کے اراکین محمد صالح اور بابو جنید کی بنیادی رکنیت ختم کرنے کمیٹی سے توثیق کے بعد ان کی خالی نشستون پر بالترتیب فیض بلوچ اوربارگ بلوچ کو اکثریت رائے سے منتخب کیا گیا۔
3:۔پارٹی پبلی کیشنز میں بلوچی زبان کے وہ رسم الخط استعمال کرے گا جس میں بلوچی زبان کے تمام لہجوں کی نمائندگی ہو۔
4:۔ ڈاکٹرجلال بلوچ کی سربراہی میں ریسرچ ،ڈیٹا کلیکشن اینڈ ٹریننگ کمیٹی قائم کی گئی جو انفارمیشن سیکریٹری کی ماتحت ہوگا۔
5:۔وائس چیئرمین کی سربراہی میں قائم چاگردی واحتسابی کمیٹی اپنی خالی نشست کو پر کرنے کے علاوہ اس کمیٹی کے لئے جامع قوائط و ضوابط کو تحریری شکل میں تین مہینے کے مدت کے اندر چیئرمین یا سیکریٹری جنرل کو پیش کرے گا۔
6:۔چاگردی کمیٹی سابقہ سرکولر کے مطابق تمام دمگ و ھنکین اپنے اپنے علاقوں میں چاگردی تنازعات کی تصفیے کے لئے کمیٹی کے سربراہ اوراس کے اراکان سے رابطہ کریں ,وہ ازخود کسی قسم کے فیصلے کا اختیار نہیں رکھتے ۔اگر کمیٹی کسی دمگ یا ھنکین کے رکن کو کسی معاملے کی تصفیے کا اختیار دیتا ہے تو اسے پورا کرنے کا پابند ہے ۔
7:۔پارٹی کو فعال بنانے اور تنظیمی امورمیں بہتر پیش رفت کے لئے مختلف دورہ کمیٹیاں تشکیل دی گئیں۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز