کوئٹہ (ہمگام نیوز) بلوچ بار ایسوسی ایشن کے صدر صادق رئیسانی ایڈوکیٹ نے اپنے بیان میں کہا گزشتہ دنوں مستونگ سے بلوچستان یونورسٹی کے تین پروفیسروں کی پاکستانی ایجنسیوں کے ہاتھوں اغوا اور دو پروفیسر جن میں شبیر شاہوانی اور نظام بلوچ کو تشدد کے بعد چھوڑ دیا گیا ،جبکہ پروفیسر لیاقت سنی صاحب اب تک ان کے تحویل میں ہیں۔
اس عمل کی بلوچ بار ایسوسی ایشن سخت الفاظ میں مذمت کرتی ہے۔
بلوچ بار کے صدر نے عالمی انصاف کے اداروں سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں پاکستانی فورسز کی طرف سے بے گناہ بلوچوں کے جبری اغوا اور قتل کرنے کے خلاف پاکستان اور ایران کے خلاف بلوچ عوام کی حمایت کرکے اپنی آواز بلند کریں۔
پروفیسر ڈاکٹر لیاقت سنی کا اغواء ہونا ایک فرد کا نہیں بلکہ بلوچستان میں علم و شعور کے اہم کرداروں کو لاپتہ کرنے کا منظم ریاستی منصوبہ بندی کا جاری تسلسل ہے،اب اس تسلسل کو باشعور عوام روکنے کی بھر پور کوشش کریں۔
بلوچستان میں پھچلے بیس سالوں سے بلوچوں کو اغوا اور ان کی لاشیں ویرانوں میں پینھک دی جاتی رہی ہے۔بلوچستان کے کئی علاقوں سے بے گناہ بلوچوں کی اجتماعی قبریں بھی ملی ہیں۔
بلوچستان میں ظلم کا بازار لگا ہوا ہے اور بلوچ پارلیمانی پارٹیاں سرکاری مراعات اور کمیشن لے کر دھوکے سے بلوچ قومی سیاست کا دعوی کر رہی ہے جو بلوچ قوم کے آنکھوں میں دھول جھونکنے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔
بلوچ بار ایسوسی ایشن پاکستانی میڈیا کے جانبدارانہ طرز صحافت کی بھی بھر پور مذمت کرتی ہے کہ پنجاب میں گدھے کو بجلی کا کرنٹ لگنے ، کراچی سے کتا گم ہو جایے، یا پنجاب میں سور کا گوشت ہوٹلوں سے برآمد ہو جاہے تو پرنٹ و الیکٹرنک میڈیا میں فورا بریکنگ نیوز چلتا ہے اور اس کے برعکس بلوچستان میں بے گناہوں شہریوں کے قتل اور اغوا نما گرفتاریوں کی خبروں کو میڈیا میں چلایا ہی نہیں جاتا۔
ایسی صورتحال میں بلوچ عوام انصاف کی خاطر انسانی حقوق کے عالمی اداروں مہزب اقوام اور بین القوامی میڈیا سے اپیل کرتی ہے کہ وہ بلوچ قوم کے ساتھ ہونے والے ناانصافیوں کے خلاف ریاست پاکستان کو عالمی عدالت انصاف کے سامنے جواب دہ ٹھہرائے۔