کوئٹہ(ہمگام نیوز) بلوچ وطن موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کئے گئے ایک بیان میں بی ایس او آزادکی ترجمان کی جانب سے بی ڈبلیو ایم کے سربراہ میر قادر بلوچ کے خلاف ہرزہ سرائی اور وش نیوز پر دیئے گئے ان کے انٹریو کے خلاصہ کو غلط رنگ دینے کی مذمت کرتے ہوئے کہاکہ کہ ہمیں بی ایس او کی موجودہ قیادت کی بصیرت اور فہم پر افسوس ہے کہ جنہوں نے بی ڈبلیو ایم کے سربراہ کے انٹریو کو بی ایس او کے مغوی چیر میں زاہد بلوچ کے ساتھ دشمنی سے تعبیر کرتے ہوئے جس بے بنیاد پروپیگنڈوں کو ان سے منسوب کرکے ان کے خلاف باقائدہ محاذآرائی کے ساتھ نہ صرف بی ایس او کے ترجمان کی جانب سے ان کے بارے میں لغو اور من گھڑت الفاظ استعمال کی گئی بلکہ بی ایس او کے وائس چیر پرسن بانک کریمہ غیر سنجیدگی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے جس اخلاقی گراوٹ کے ساتھ ان کے خلاف ایک کالم کی صورت میں ہرزہ سرائی کی ہے وہ نہ صرف قابل مزمت ہے بلکہ ایک سیاسی کارکن اور جہد کار کو ایسے الفاظ زیب نہیں دیتے کہ وہ کسی قسم کی اختلاف رائے کے بدلے میں کردار کشی پر اتر آئیں بی ایس او کے لئے ایسی قیادت کا چناﺅ جوسیاسی بالیدگی کے بجائے بازاری زبان استعمال کریں یقینا ایسی قیادت بی ایس او کے تاریخی حیثیت و مقام کو تباہ کرنے کی برا بر ہے ترجمان نے کہاکہ سیاسی اختلافات کو زاتی دشمنی سے تعبیر کرنا بی ایس او کے قیادت کی کم فہمی ہے اختلافات کو پاﺅں کی بیڑی کے بنانے کی بجائے ہمیں توقع تھی کہ بی ایس او بشمول ان کے ہم پلہ اس سلسلے میں تنگ نظری کے بجائے لچک کا مظاہرہ کریں گے لیکن بی ایس او سیاست علم دلیل لچک اور بات چیت کے بجائے صرف اور صرف کردار کشی کو ہی کل سمجھتی ہے میر قادر اور سرفراز بگٹی کے کردار میں فرق کرنے کے بجائے انہیں ایک ہی زاویہ میں دیکھنا بی ایس او کی قیادت کی سوچ اور بصیرت کی اندازہ کرنے کے لئے کافی ہے قومی آذادی کے لئے جدوجہد کرنے والے اور قوم و آزادی دشمنوں میں فرق ہے میر قادر کو بی ایس او آزاد کی قیادت کی سرٹیفیکٹ کی نہ پہلے ضروت تھے نہ اب ہے نہ کھبی ہوگا کسی بھی جہد کار کے لئے اس کی زاتی کردار ثابت قدم جدوجہد اس کے لئے سب سے بڑی سرٹیفکٹ اور اعزاز ہے ہمارا ایمان ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ کھرے اور کھوٹے کا فرق ضرورسامنے آئیگا ترجمان نے کہاکہ زاہد بلوچ کی زندگی کی خطرے کو ہمارے سر تھونپنا مضحکہ اورسفید جھوٹ ہے زاہد بلوچ کی گمشدگی میں بی ایس او کی قیادت اور ان کے آقا براہ راست ملوث ہے جنہوں نے اپنی گروہی اور علاقائی مفادات اور معتبری کے لئے زاہد بلوچ کی زات کو غیر محفوظ بنا یا اور ایک مہینہ تک ان کی اغواءنما گرفتاری کو بلوچ قوم سے چھپائے رکھا جوکہ خود ایک سربستہ ہائے راز ہے ترجمان نے کہا کہ میر قادر کو ریاست نے مسلسل تین بار قید و بند میں رکھاانہیں شدید ازیت اور تفتیش میں رکھا ان کے خاندان اور برادری کو ہراساں کیا گیا لیکن ان کے پاﺅں میں زرہ برابر لغزش نہیں آئی آج اسے بی ایس او کی جانب سرفراز جیسے لوگوں کے صف میں کھڑاکرنے کا سوچ انتہائی سطحی اور گھٹیا پن ہے بی ایس او کی جانب سے تمام سیاسی اخلاقی قدروں کو بائی پاس کرتے ہوئے میر قادر کی زات اور کردارپر جس طرح کیچڑ اچھالا گیا تھا بلوچ وطن موومنٹ کو ان کی فضولیات کا جواب دینا گہوارہ نہیں تھا لیکن بانک کریمہ کی آرٹیکل کے بعد یہ ضرور ت محسوس کی گئی کہ قوم کے سامنے ایک وضاحت ضرور پیش کیا جائے تا کہ بی ایس او کی موجود قیادت کی بھوکلاہٹ اور تکبر کا پردہ چاک ہو بی ایس او یہ سمجھتی ہے کہ وہ اپنے گمراہ کن پروپیگنڈوں سے کسی کو مرعوب کر سکتا ہے تو یہ اس کی بھول ہے تر جمان نے کہاکہ ہم بھی بی ایس او کے قیادت ڈھنگ اور لب و لہجہ میں بات کرسکتے تھے ان کے قیادت اور کرداروں پر انگلی اٹھا سکتے تھے ان کے دامن سے باندھنے کے لئے ہمارے پاس بھی جواز ہوسکتے تھے لیکن ہم نے سیاسی اخلاقیات کی پاسداری کرتے ہوئے ہمیشہ سے کردار کشی سے اجتناب کیا لیکن پھر بھی بی ایس او کے قیادت اور ان کی آقاﺅں کی بوکلاہٹ دیکھنے کے قابل ہے کہ وہ اصولی سیاسی اختلافات کو اخلاقی جرائت کے ساتھ قبول کرنے کے بجائے زہریلی اور شر انگیز پروپگنڈہ کرر ہے ہیں ترجمان نے کہاکہ زاہد بلوچ کی بازیابی کے لیئے ہم بھی دعاگوہ ہیں کہ وہ جلد بازیاب ہو جائیں ہمارے ان سے کوئی زاتی دشمنی نہیں انکی گمشدگی کا زمہ دار ہم نہیں بلکہ بی ایس او کی موجودہ قیادت ہے جنہوں نے اپنی غلط حکمت عملی کے ساتھ آسانی سے زاہد بلوچ د کو دشمن کے ہاتھوں میں دیکراب اس مخمصہ میں ہیں کہ اس سانحہ کا تعلق کس سے جوڑا جائے زاہد بلوچ کے دوران اغواءان کے ساتھ کون تھے اوراس وقت یہ واقعہ پیش آیا تو وہ کونسی صورتحال تھی یہ ہم سے زیادہ بانک کریمہ کو معلوم ہے کیونکہ زاہد کے اغواءکے بعد شہرت اور نمود نمائش کی بہتی گنگا میں جس طرح ہاتھ ڈبونے کی کوشش کی گئی تواس سے یہ لگتاہے کہ یہ ایک طے شدہ منصوبہ سے کم نہیں تھی ترجمان نے کہا کہ ریاست بلا امتیاز اور بلالحاظ کئی آزادی پسندوں کو حراست میں لیا ہے ہزارون فرزند اب بھی لاپتہ ہیں ہمیں نہ ریاست سے خیر کی توقع ہے اور نہ ان کی عدالتوں پر اعتماد ہے آزادی کی جدوجہدہی ڈیتھ وارنٹ سے کم نہیں لیکن ہم نے ہمیشہ سے زیر زمین اور سطح زمیں جدوجہد میں حد بندی کی بات کی ہے اور اس میں ہمارا موقف درست ثابت ہواہے اورآج جتنا بھی نقصان ہواہے اس مین جہان دشمن کی قہر و جبر کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا وہان اپنی غلط پالیسیوں کو بھی خارج نہیں کیا جاسکتا بی ایس اوکے مشکے کونسل سیشن کے بعد جس زیر زمین انداز میں اس کے ڈھانچے کا اعلان کرنا یہ ریاست کے لئے کسی جواز سے کم نہیں بی ایس او کو جس بند گلی میں لے جاکر ایک گروہ کی مفادات کے لئے قربان کیا گیا یہ ہمارے کھاتے میں نہیں بلکہ بانک کریمہ اور بی ایس او کے زمہ داروں کے کھاتے میں جاتے ہیں اس کے لئے بانک اور ان کے شریک کار بلوچ قوم کو جوابدہ ہے کل تک گولی اور بندوق کی بات سے نیچے آکر آج ایک دم سے یوٹرن لے کرسٹوڈنٹس سیاست کے اصطلاح استعمال کرنا جمہوری اور پر امن جدوجہد کے بات کرنا یہ بی ایس او کی موجودہ قیادت کی تسلسل کے ساتھ تذبذب اور تضاد بیانی ہے ہم نے پہلے بھی کہاہے اور آئندہ بھی اس موقف پر قائم ہے کہ آزادی کے لئے زمینی جدوجہد بھی ایک زریعہ ہے جدوجہد کے کثیر الجہتی زرائع کے ساتھ یہ بھی ایک زریعہ ہے اور ہم نے اپنی بساط کے مطابق اس کا چناﺅ کیا لیکن بی ایس او کے قیادت کے سابقہ ریکارڈ بیانات دیکھ لیں کہ اس کے نقصان میں کس کا ہاتھ شامل ہے کریمہ بلوچ اپنی آنکھوں سے پٹی اتارین پہلے اپنی محاسبہ کریں پھر ہمیں دشنام دیں ترجمان نے کہا کہ بی ایس او کے حالیہ قیادت نے کس کس کو معاف کیا بلوچ قومی رہنماءخیر بخش مری اور حیر بیار مری تک کو بھی نہیں بخشا گیاایک وقت تک یہ لوگ خیر بخش کو قبائلی شخص تک کہنے سے ہچکچاتے نہیں تھے اور آج وہ خود کو خیربخش کا حقیقی پیروکار ظاہر کرکے قوم کو گمراہ کررہے ہیں حتی کہ لطیف جوہر کی بھوک ہڑتا ل کو ختم کرنے کی خیر بخش مری کی اپیل کو ٹکرا کر ایشین رائٹس کے ایک خاتوں کے کہنے پر بھوک ہڑتا ل ختم کی گئی بی ایس او کی قیادت اس گھمنڈ سے نکلیں کہ وہی بلوچ قوم کے لئے سمبل ہے وہی آزادی کا کرتا دھرتا ہیں باقی سب ان کا رعایا ہے ایسا نہیں ہے آزادی کے لئے جدوجہد کرنے والے تمام قوتیں تما م سٹیک ہولڈرز کی اپنی اپنی حیثیت ہے ترجمان نے کہاہے کہ بلوچ وطن موومنٹ بی ایس اوکی موجودہ قیادت کو بلوچ قومی عدالت میں کھلے عام مناظرہ اور مکالمہ کے لئے چیلنج کرتا ہے کہ بی ایس او کے نقصان اور بلوچ قومی آزادی کی جدوجہد میںآلودگی اور انتشار پیدا کرنے کی زمہ دار کوں ہیں