کوئٹہ (ہمگام نیوز) بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے بی ایس او آزاد کے سابقہ چیئرمین زاہد بلوچ کے جبری گمشدگی کو آٹھ سال مکمل ہونے اور اب تک انہیں منظر عام پر نہ لانے پر اظہار تشویش اور عالمی اداروں کے کردار پرسوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ چیئرمین زاہد ایک سیاسی اور پرامن جدوجہد پر یقین رکھنے والے لیڈر ہیں جنہیں سیاسی اور قومی جدوجہد کی پاداش میں گزشتہ آٹھ سالوں سے زندان میں رکھا گیا ہے۔ بیان میں کہا گیا ہےکہ زاہد بلوچ بطور ایک بلوچ سیاسی رہنماء دنیا بھر میں جانے جاتے ہیں مگر اُن کی اس طرح گمشدگی اور منظر عام سے غائب ہونے پر عالمی اداروں کی خاموشی سوالیہ نشان ہے۔ زاہد بلوچ کی جبری گمشدگی بلوچستان میں سیاسی آوازوں کو دبانے کی کوششوں کاحصہ ہے اور اس کا سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے۔ بلوچستان کے طول و عرض میں جبری گمشدگیوں کے واقعات میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے جبکہ اس سلسلے میں سب سے زیادہ پرامن بلوچ طلباء کو نشانہ بنایا جا رہا ہےجن سے ریاست خائف ہے۔ اصل میں ریاست طالب علموں پر نہیں بلکہ بلوچ شعور پر حملہ آور ہے اور اسے ختم کرنےکیلئے ریاست باشعور بلوچوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ قومی آزادی کی تحریکیں طاقت کے زور پر دبائے نہیں جاسکتے بلکہ مزید توانائی اختیار کرتے ہوئے اپنے منزل مقصود کی طرف رواںدواں ہوجاتی ہیں۔ ترجمان نےکہا کہ زاہد بلوچ کی جبری گمشدگی کو 8 سال کا طویل عرصہ مکمل ہوچکا ہے لیکن ان کو آج تک منظر عام پر نہیں لایا گیا نہ ہی انکو کسی عدالت کے سامنے پیش کیا گیاہے اور نہ ہی خاندان اور تنظیم کو زاہد بلوچ کی خیریت کے حوالے سے کوئی خبر دی گئی ہے جو صریحاً انسانی حقوق کی سنگین ترین خلاف ورزی ہے۔ چیرمین زاہد بلوچ پرامن سیاسی جدوجہد کے حامی تھے جنہوں نے بلوچ قومی غلامی کے خلاف نوجوانوں کی ذہن سازی کی اورہمیشہ بلوچ طالب علموں کو پرامن سیاسی جدوجہد کا درس دیتے رہے لیکن پر امن سیاسی جدوجہد سے خائف ریاست نے زاہد بلوچ کو 18 مارچ 2014 کو تنظیم کے سابقہ چئیرپرسن لمہ ء وطن بانک کریمہ بلوچ اور دیگر ذمہ داران کے سامنے کوئٹہ سے جبری اغوا کرکے لاپتہ کیا جن کا آج تک کچھ پتہ نہیں۔ زاہد بلوچ کی جبری گمشدگی کےخلاف تنظیم نے مقامی اور عالمی سطح پر کئی منظم احتجاج ریکارڈ کرائے۔ ریلی، مظاہرے ،پریس کانفرنس کے ذریعےعالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کی جدوجہد کی۔ ترجمان نے کہا کہ تنظیم کے سابقہ مرکزی کمیٹی ممبر لطیف جوہر بلوچ کو کراچی میں تادم مرگ بھوک ہڑتالی کیمپ میں بٹھایا گیا اور دیگر آزادی پسند تنظیموں کی مدد سے عالمی سطح پر بھرپور احتجاج کی گئی، لیکن کوئی خاص نتیجہ برآمد نہ ہوسکا جو انسانی حقوق کے اداروں کی ساکھ پر سوالیہ نشان ہے۔ بی ایس او آزاد جیسے پرامن طلبہ تنظیم پر پابندی اور طالب علم لیڈروں سمیت کارکنان پر ریاستی کریک ڈاؤن بلوچستان میں بلوچ طلباء سیاست پر قدغن لگانے کا واضح ثبوت ہے جس پر عالمی اداروں کی پر اسرار خاموشی ایک معمہ ہے جس کا حل ہونا انسانیت کی بقاء اور دہشت گردی کی بیخ کنی کے لئے ضروری ہے۔ ترجمان نے اپنے بیان کے آخر میں انسانی حقوق کی تنظیموں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ بلوچستان میں جبری گمشدگی کے خلاف ایک واضح موقف اپنا کر ریاست پر دباؤ ڈالیں اور بلوچ سیاسی اسیران کی بازیابی کے لئےاقدامات اٹھائیں تاکہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی بحالی کو ممکن بنایا جاسکے جبکہ زاہد بلوچ کی جبری گمشدگی کو 8 سال مکمل ہونے پر سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر #SaveZahidBaloch کے ہیش ٹیگ سے ایک مہم بھی چلائی جائے گی۔ جس میں تمام بلوچ سیاسی پارٹیوں ، تنظیموں ،انسانی حقوق کے کارکنوں اور سوشل میڈیا کارکنان سے اپیل کی جاتی ہیں کہ وہ اس آگاہی مہم میں شرکت کرکے انسان دوستی کا ثبوت دیں.