کوئٹہ (ہمگام نیوز)بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کی نو منتخب کابینہ نے کوئٹہ پریس کلب میں مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا بلوچ طلباء ایکشن کمیٹی بلوچستان میں واحد غیر سیاسی تنظیم ہے جو تعلیمی مسائل کو اجاگر کرنے اور معیاری نظام تعلیم کے لئے جدوجہد کررہا ہے۔ بلوچستان تعلیمی اداروں کے حوالے سے باقی صوبوں کے برعکس انتہائی پسماندہ صوبہ ہے یہاں تعلیمی ادارے ضرورت سے انتہائی کم ہیں۔ اندرونِ بلوچستان میلو ں کے فاصلے تک اسکول کا نام و نشان تک نہیں۔ مڈل و ہائی اسکول انتہائی محدود پیمانے پر تعمیر کیے گئے۔ جہاں کہیں چند ایک ہیں وہ غیر فعال ہیں۔اندرون بلوچستان میں پریشان کن حد تک بڑی تعداد میں اسکولز مکمل بند ہیں۔ ہمارے اعداد و شمار کے مطابق حب ، اوتھل ،آواران، جھاؤ، کولواہ، مستونگ، پنجگور، مکران و خاران کے علاقوں میں ایسے کئی اسکول ہیں جو آبادیوں کے درمیان موجود ہونے کے باوجود مکمل غیر فعال ہیں۔جس سے نئی نسل بنیادی تعلیم سے بھی بے بہر ہورہی ہے۔ جس کے منفی اثرات مستقبل قریب میں معاشرے میں اپنے اثرات دکھا سکتے ہیں۔بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں نے کہا کہ بلوچستان کے اکثر علاقوں میں بنیادی نظام تعلیم نہ ہونے کے برابر ہے پرائمری اور سکینڈری اسکولوں میں گھوسٹ ٹیچروں کی بھر مار ہے اسکولوں کے عمارت غیر قانونی قبضے میں ہے۔ محکمہ تعلیم اور سرکاری افسران کی ملی بھگت سے نا اہل لوگوں کو سفارش کی بنیاد پر بھرتیاں کی جاتی ہے جس کے سبب بلوچستان کے نظام تعلیم تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے ۔ان مسائل کا ادراک رکھتے ہوئے بلوچستان کے مختلف علاقوں سے تعلیم حاصل کرنے والے نوجوانوں نے تعلیمی مسائل کو مدنظر کرکے 2009کو بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کا قیام عمل میں لایا۔شروع دن سے ہی ہمیں یہ تجربہ رہا ہے کہ بلوچستان میں افسر شاہی کی آشیر باد و سفارش کے ذریعے بھرتی ہونے والے غیر فعال ٹیچروں کے خلاف جدوجہدکرنا کتنا مشکل ہے۔ لیکن دوستوں کی انتھک محنت اور جدوجہد نے تنظیم کو بلوچستان اور سندھ کے تعلیمی اداروں میں فعال کردیا آج بلوچ طلبا ایکشن کمیٹی بلوچستان میں سب سے متحرک طلباء حقوق کیلئے جدوجہد کرنے والی تنظیم ہے اور بلوچ طلبا ایکشن کمیٹی نے اپنے قیام کے مختصر دورانیہ میں اپنی جدوجہد کو بلوچستان کے تمام تعلیمی اداروں میں وسعت دینے کی کوشش کی اور اس جدوجہد میں کافی حد تک ہم کامیاب بھی ہوئے ہیں۔بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کی فعالیت کا سہرا سابقہ سربراہ ڈاکٹر ابابگر بلوچ سمیت ان دوستوں کے سرجاتا ہے جنہوں نے تنظیم کو فعال کرنے میں جدوجہد کی ہے۔انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت نے تعلیمی ایمرجنسی اور 26فیصد تعلیمی بجٹ کے زبانی اعلانات تو کئے ہیں۔ لیکن یہ محض نعرے ثابت ہوچکے ہیں۔ کیونکہ عملی طور پر کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ اس حقیقت میں کسی شک وشبے کی کوئی گنجائش نہیں ہونا چاہیئے کہ بیشتر سرکاری تعلیمی اداروں میں حکومتوں کی عدم توجہی ، بیجا سیاسی مداخلت،سفارشی رجحان ،امیتازی سلوک، کرپشن اور بدانتظامی کی وجہ سے کوئی خاص معیار تعلیم موجود نہیں ہے ،اب بلوچستان حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنا پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کرکے تعلیمی نظام میں بہتری لانے کیلئے سخت اقدامات کرے۔تاکہ بلوچستان کی مستقبل کو تاریکی میں ڈوبنے سے بچایا جا سکے۔رہنماؤں نے کہا کہ بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی نے اپنے سابقہ کارکردگی پر روشنی ڈالنے اور نئی مرکزی کابینہ تشکیل دینے کے لئے اجلاس طلب کیا۔ اجلاس میں زمہ داروں نے شرکت کر مسائل پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ بلوچستان میں تعلیمی نظام کی مخدوش صورت حال، شہری و دیہی علاقوں میں اسکولوں کی بندش و دیگر مسائل پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کارکنان نے ان کی تدارک کے لئے حکمت عملی ترتیب دی۔اس بات پر بھی زور دی گئی کہ بلوچستان و سندھ سمیت پاکستان کے دوسرے شہروں کی تعلیمی اداروں میں تنظیم کو وسعت دی جائے گی۔ جبکہ پہلے مرحلے میں بلوچستان میں تباہ حال تعلیمی نظام کی بحالی کے لئے حکومتی نمائندوں و زمہ دار کابینہ اراکین سے ملاقاتیں کی جائیں گی، اور انہیں کرپٹ افسران، بند اسکولوں و دیگر مسائل کے بارے میں آگاہ کیا جائے گا۔ اگر اس سے خاطر خواہ نتائج برآمد نہ ہوئے تو آئندہ کی حکمت عملی کا اعلان کیا جائے گا۔اجلاس میں مرکزی کابینہ کے نئے عہدوں میں صدر کے لئے رشید بلوچ، نائب صدر شان بلوچ،جنرل سیکرٹری ڈاکٹر زرک شاہی، فنانس سیکرٹری سکندر بلوچ، انفارمیشن سیکرٹری جمال ناصر کا انتخاب کیا گیا۔کابینہ کے عہدہ داروں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ معاشرے میں تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کرنے اور بلوچ نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کرنے کے لئے اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے۔ اور بلوچستان میں بند اسکولوں کو فعال کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کریں گے۔