کوئٹہ (ہمگام نیوز) بلوچ نیشنل موومنٹ کی جانب سے مادری زبان کے عالمی دن کی مناسبت سے بی این ایم یوکے زون نے ایک سیمینار “مادری زبان کی اہمیت” کے عنوان سے برطانیہ کے شہر لندن میں ایک کانفرنس منعقد کیا۔ سیمینار سے بلوچ دانشور ڈاکٹر نصیر دشتی، بلوچ مصنف ڈاکٹر نا گمان بلوچ، بلوچ نیشنل موومنٹ کے خارجہ سیکریٹری حمل حیدر بلوچ، بلوچ ادیب ولید گربونی، بلوچ شاعر حسن ہمدم، بلوچستان راجی زرمبش کے رہنما عبداللہ بلوچ، ورلڈ سندھی کانگریس کے رہنما ڈاکٹر ہدایت بھٹو، بی این ایم ڈائسپورہ کمیٹی کے ڈپٹی آرگنائزر حسن دوست بلوچ، بی آر پی کے منصور بلوچ سمیت بی این ایم یوکے زون کے رکن نسیم عباس بلوچ نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
سیمینار سے حمل حیدر بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عالمی مادری زبان کے دن کی مناسبت سے ہم یہ پیغام بلوچ ادیبوں کو دینا چاہتے ہیں کہ بلوچ نیشنل موومنٹ بلوچ قومی زبانوں کی ترقی و ترویج کی خاطر کی جانے والی تمام کاوشوں اور جدوجہد کی عملی طور پر حمایت کرتے ہوئے ان کی کمک کرنے کو ہر وقت تیار ہے۔ حمل حیدر بلوچ نے کہا ہم نے محسوس کیا ہے کہ زبان کے حوالے سے کام نہ کرنے یا زبانوں کی اہمیت کو نہ سمجھنے جیسے مسائل پر سیاسی پارٹیوں پر تنقید کی جاتی رہی ہے۔ لیکن ہم یہ سمجھتے ہیں یہ بلوچ ادیب، دانشوران و شعرا کو متفقہ طور پر ایک رائے قائم کرنے کی ضرورت ہے کہ کس طرح زبانوں کو اسٹینڈرڈ بنایا جائے۔ پھر ان طریقہ کار پر عملی طور پر کام کرنے کی خاطر سیاسی پارٹی خاص طور پر بی این ایم کی لیڈر شپ و ورکر ان کے ہمراہ ہوں گے۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بلوچ دانشور نصیر دشتی نے بلوچ قوم اور بلوچ قومی زبانوں کے بابت تاریخی حوالے سے کہا کہ بلوچ قومی زبان بلوچی و براہوئی ان زبانوں میں جو انڈو ایرانین زبانوں کی کچھ باقی زبانوں میں شمار ہوتی ہیں جو انڈکردش اور بلوچی زبان۔ ڈاکٹر نصیر دشتی نے کہا کہ تاریخی طور پر بلوچ قومی زبان بلوچی اور براہوئی بلوچستان میں بہت سے مختلف علاقوں میں بولی جاتی ہے۔ بیشتر اکثریتی براہوئی علاقوں میں لوگ بلوچی اور براہوئی دونوں زبانیں بولتے ہیں۔ ڈاکٹر نصیر دشتی نے مزید کہا زبانوں کی ترقی و ترویج کے لئے ضروری ہے کہ اپنی مادری زبانوں کو پڑھا جائے ان سے محبت بڑھائی جائے تاکہ شعوری طور پر بلوچ قوم اپنی قومی زبانوں، تاریخ، روایات اور سیاسی جدوجہد سے ہمکنار ہوسکیں۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بلوچ افسانہ نگار و مصنف ڈاکٹر نا گمان بلوچ نے کہا کہ آج دنیا میں کم از کم سات ہزار زبانیں آٹھ بلین لوگ بولتے ہیں۔ ان آٹھ بلین لوگوں میں چار بلین لوگ ان زبانوں سے تعلق رکھتے ہیں جو زبانیں دنیا کی طاقت ور ترین زبانیں ہیں جن انگلش، اسپانش، چینی، ہندی و فرانسیسی زبانیں شامل ہیں۔ باقی چار بلین لوگ بقایا زبانیں جو ہزاروں کی تعداد میں ہیں بولتے ہیں۔ آج بلوچ قوم کو سوچنا ہوگا کہ ان کی زبانیں کہاں کھڑی ہیں۔ ڈاکٹر نا گمان نے مزید کہا کہ آج ایک ایسا ماحول پیدا ہوا ہے کہ جہاں سیاسی ورکر ادبی لوگوں کو اور ادبی لوگ سیاسی جماعتوں کو مادری زبان کے حوالے سے کام نہ کرنے کا طعنہ دے کریہ سمجھتے ہیں وہ بری الذمہ ہوگئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جس طرح بلوچستان کی آزادی کی خاطر بندوق اٹھاکر جدوجہد شروع کی گئی ہے بالکل اسی طرح بلوچی زبان کی خاطر قلم اٹھانا پڑیگا اور جدوجہد کرنی پڑے گی۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بلوچ نیشنل موومنٹ ڈائسپورہ کمیٹی کے ڈپٹی آرگنائزر حسن دوست بلوچ نے کہا کہ آج ہم دیکھ رہے ہیں بلوچ قوم میں تفریق ڈالنے کی خاطر ایک منظم کوشش کی جارہی ہے کہ بلوچ قوم کو زبان کے نام پر تقسیم کیا جائے۔ ریاستی سرپرستی میں ایک ٹولہ منظم انداز میں براہوئی زبان بولنے والے بلوچوں کو براہوئی قوم بناکر پیش کرنے کی ناکام کوششوں میں مگن ہیں ان کی پُشت پناہی کچھ سرکاری سردار اور ریاستی کاسہ لیس کررہے ہیں حسن دوست بلوچ نے مزید کہا کہ آج کے اس دور میں ضرورت ہے تو ایک ایسے جامعہ پالیسی کی جو بلوچی و براہوئی زبانوں کو توانا کرتے ہوئے ان ریاستی پروپیگنڈوں کو شکست دیکر قومی یکجہتی کا ثبوت دے سکے۔
سیمینار سے ورلڈ سندھی کانگریس کے رہنما ڈاکٹر ہدایت بھٹو نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اکیس فروری کا دن وہ دن ہے جب پاکستانی ریاست نے بنگلہ دیش کی اکثریتی زبان پر ایک اقلیتی اور غیر زبان کو لاگو کرتے ہوئے ان سے مادری زبان چھیننے کی کوشش کی۔ انہوں نے کہا بنگلہ دیشی نوجوانوں کی قربانیاں اور شہادت کی بدولت اکیس فروری کا دن تاریخ میں ایک اہم دن کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ دن ہر سال پاکستانی ریاست کے منہ پر ایک طمانچہ بن کر لگتا ہے۔ ڈاکٹر ہدایت بھٹو نے مزید کہا کہ قومی زبانوں کو بزور طاقت ختم کرنے کی پاکستانی کوششیں سندھ میں جاری ہیں جہاں بہت سے سندھی اسکولوں کو بند کرنے سمیت وہاں غیر مقامی زبانوں کو اہمیت دی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ تاریخی سرزمین اور تاریخی زبانوں سے تعلق رکھنے والے اقوام کی آزادی ہی ہماری مادری زبانوں کی محافظ ہوسکتی ہے۔
اجلاس سے دیگر شرکاء نے اپنے اشعار پیش کرنے کے ساتھ ساتھ قوم و زبانوں کی تاریخی حیثیت و اہمیت پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں سمجھنا ہوگا ہماری سرزمین اور زبان سخت ترین دور سے گزر رہے ہیں۔ اگر ہم آج اپنی قومی زبانوں اور قومی ریاست کی آزادی و بہتری کی خاطر جدوجہد نہیں کریں گے تو یقیناً ہماری زبانوں سمیت ہماری قومی حیثیت بھی اپنے ہی سرزمین پر ختم ہو جائیں گے۔
اجلاس کے اختتام پر بی این یوکے زون کے صدر حکیم بلوچ بلوچ نے بلوچ ادیب و دانشوران سمیت بی آر پی یوکے زون کے رہنما منصور بلوچ و ساتھیوں اور تمام شرکاء کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا کہ ہم اسی طرح قومی تحریک اور قومی زبانوں کے حوالے سے منعقدہ سیمینار اور دیگر پروگرام ترتیب دیکر اپنے لوگوں کو شعوری طور پر تبلیغ کرنے عمل جاری و ساری رکھیں گے۔