کوئٹہ(ہمگام نیوز) بلوچ نیشنل موؤمنٹ کے مرکزی ترجمان نے پاکستان کی جانب سے برطانیہ کو آزادی پسند بلوچ رہنماؤں کیخلاف کارروائی کے مطالبے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ قوم اقوام متحدہ کے قوانین کے تحت اپنی آزادی کی جد و جہد کر رہی ہے ۔ایسے میں ایک دہشت گرد ملک کے آرمی چیف کا برطانیہ جیسے جمہوری ملک میں گارڈ آف آنر اور برطانوی عوام کی ووٹوں سے منتخب جمہوری وزیراعظم سے ملاقات اور بلوچ جہد و بلوچوں کے خلاف کاروائی کا مطالبہ جمہوری اداروں کیلئے بے چینی کا باعث بن رہی ہے ۔تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان نے 1948 میں بزورشمشیر بلوچ سرزمین پر قبضہ کیا اور اسی روز سے بلوچ اپنی آزادی کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں، مختلف ادوار میں جہد سرد و گر م، نشیب و فراز کیساتھ جاری رہی ہے مگر 2002 کے بعد سے بلوچ نے اپنی آزادی کی جہد کو منظم بنانے کے لیے سیاسی اداروں کی بنیاد کے ساتھ انھیں مضبوط کر کے عوامی آگاہی کے جس عمل کو شروع کیا، اُس دن سے عوامی شمولیت و پذیرائی نے جہد کو ایک نیا رنگ اور جہد کاروں کو ایک عظیم حوصلہ دیا ہے جس سے قابض ریاست پاکستان ہر محاذ ہر حواس نابختگی کا شکار ہے ۔آئے روز آپریشن، اغوا ، مسخ شدہ لاشیں بھی بلوچ جہد کو زیر نہیں کر سکی ہیں۔ قوم کی جوق در جوق آزادی کی جہد میں شمولیت گزشتہ ریاستی الیکشن سے عوام کی بائیکاٹ نے دنیا پر واضح کر دیا کہ بلوچ اپنی آزاد ریاست کے علاوہ کسی بھی شرط و شرائط کے ماننے کو تیار نہیں۔اسی طرح سرزمین بلوچ پہ جہد کی تیزی نے بیرونی ممالک میں بھی ایک آگاہی پیدا کر دی ہے ،گزشتہ روز برطانیہ میں بلوچ جہد کاروں کے خلاف زہر آفشانی دراصل ریاستی فورسز کی بھوکھلاہٹ کا نتیجہ ہے۔برطانیہ سمیت کسی بھی مہذب ممالک کا یہ قانونی حق نہیں بنتا کہ وہ دنیابھر میں موجودبلوچ سیاسی کارکنا ن و رہنماؤں کو پاکستان کے کہنے پر ان کے حوالے کرے ۔انہوں نے کہا کہ اقوام عالم کو معلوم ہے کہ بلوچستان میں ریاست خون کی ہولی کھیل کر بلوچ قوم کی نسل کشی کر رہی ہے اور یہ ریکارڈ پر موجود ہے کہ بلوچستان میں اب تک 20ہزار سے زائد لوگ لاپتہ ہیں اور دو ہزار سے زائد افراد کی مسخ لاشیں پھینکی گئی ہیں۔اس پر وائس فاربلوچ مسنگ پر سنز گذشتہ 1865دنوں سے علامتی بھوک ہڑتال پر ہے جوپاکستانی مظالم کا عکاس ہے ۔ اس کے باوجود بھی اگر کوئی ممالک پاکستان کے کہنے پر بلو چ رہنماؤ ں اور سیاسی کارکنان کو ان کے حوالے کرے یا ان کیخلاف کوئی کارروائی کرے تو یہ عالمی قوانین کے سراسر منافی ہوگا۔پاکستان کی جارحیت اور غیر جمہوری سوچ کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ بیرونی معاملات کو سنبھالنے کیلئے آرمی چیف وزارت خارجہ کی ذمہ داریوں کو نبھا رہے ہیں ، ایسے میں برطانیہ جیسے جمہوری ملک کے وزیراعظم کی ایسے معاملات پر پاکستان کی آرمی چیف سے بات چیت یا مزاکرات عالمی جمہوری اداروں کی تضحیک ہے ۔ ہم برطانیہ سمیت یورپی یونین ، امریکہ و دوسری جمہوری قوتوں سے اُمید رکھتے ہیں کہ وہ نہ صرف پاکستان جیسی غیر جمہوری اور شدت پسند ریاست سے معاہدات ختم کرکے جمہوریت کا اعلیٰ مثال قائم کرینگے بلکہ بلوچستان میں ہونے والی ریاستی ظلم و جبر کا نوٹس لینے کے ساتھ ایک آزاد جمہوری بلوچستان کی جد و جہد میں ہمارا ساتھ دیکر خطے و دُنیا میں امن کے قیام کی راہ ہموار کریں گے