شال (ہمگام نیوز) این ڈی پی کے ترجمان نے کہا ہے کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ سمیت صبغت اللہ شاہ جی، بیبو بلوچ، گل زادی بلوچ، بیبرگ بلوچ و دیگر کو من گھڑت الزامات کے آڑ میں پابند سلاسل کرنا بنیادی طور پر نا صرف عالمی منشور برائے انسانی حقوق بلکہ پاکستانی ریاست کے اپنے بنائے ہوئے آئین و قانون کی سنگین خلاف ورزیوں میں شامل ہیں۔ ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ آئین کے تحت اپنے شہریوں کو مکمل انصاف اور اظہارِ رائے کی آزادی دے، تاکہ معاشرہ جبر سے آزاد اور قانون کے تابع ہو۔ لیکن جب یہ ذمہ داری خود ریاستی ادارے پامال کریں، تو معاشرے میں بےچینی اور ناانصافی جنم لیتی ہے۔
انہوں نے کہا کسی بھی ریاست میں جہاں بنیادی انسانی حقوق کی پامالی ہوں، یا آئین و قانون کی دھجیاں اڑائی جا رہے ہوں ان تمام تر صورتحال میں عدلیہ کی ایک بہت بڑی زمہ داری بنتی ہے کہ وہ انصاف کی فراہمی یقینی بنائے لیکن بدقسمتی سے ہم سمجھتے ہیں کہ بی وائی سی کیس کے حوالے سے عدلیہ نے نظریہ ضرورت کو اپنا کر ان کے آئینی درخواست کو مسترد کر دیا جو کہ عدلیہ کی جانبداری اور بے بسی کو واضح کرتا ہے۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں پر بے بنیاد الزامات اور ان کی آئینی درخواستوں کو مسترد کرنا اسی جبر کی ایک مثال ہے، جو عدلیہ کی کمزوری اور ریاستی ناانصافی کو ظاہر کرتا ہے۔
انہوں نے کہا گزشتہ دنوں ڈی جی آئی ایس پی آر کی جانب سے بلوچ یکجہتی کمیٹی اور ان کے رہنما ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ سمیت اپنے حقوق مانگنے والے بلوچوں پر کسی اور ملک کے پراکسی کا الزام لگایا گیا جو کہ حقائق کے منافی اور اپنے حقوق مانگنے والے بلوچوں کی تذلیل کے مترادف ہیں۔ ہم واضح کرتے ہیں کہ ایسے ہتھکنڈوں سے سیاسی کارکنوں کی جدوجہد کو کمزور نہیں کیا جا سکتا بلکہ یہ رویے جبر پر مبنی نظام کی غیر پائیداری کو اور بے نقاب کرتے ہیں۔ بلوچستان میں انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے ہر فرد کو اظہارِ رائے اور جمہوری سرگرمیوں کا پورا حق دیا جائے۔ ریاست اور ریاستی اداروں کو اپنی پرانی روش اور وطیرہ بدلنا ہوگا کیونکہ ماضی میں بھی ایسے بہت سے مثالیں موجود ہیں کہ ریاست نے حقوق مانگنے والے سب پر غیر ملکی پراکسی یا غداری کے الزامات لگائے گئے ہیں جو کہ غیر جمہوری اور نا مناسب رویہ ہے۔
انہوں نے کہا حکومت وقت سے مطا لبہ کرتے ہیں کہ وہ بی وائی سی کے مرکزی رہنما ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ سمیت تمام گرفتار سیاسی کارکنان کو بغیر کسی حیل و حجت کے رہا کریں۔