اتوار, مئی 19, 2024
ہومآرٹیکلزتبدیلی حالات میں نظر ثانی شدہ رائے۔ تحریر: میران بلوچ

تبدیلی حالات میں نظر ثانی شدہ رائے۔ تحریر: میران بلوچ

 کسی بھی نظام ،سسٹم کے خا تمہ کے پس منظر میں سیاسی ،معاشی،معاشرتی،نفسیاتی وجوہات ہوتی ہیں،معاشرہ تبدیل ہوتا ہے حالات بدلتے ہیں اور اگر لیڈران اور حکمران تبدیل شدہ حالات کو نہ سمجھ سکا اور پرانی رش پر چلا تو زوال اس نظام ،سسٹم کا مقدر ہوگا جہاں بھی وقت و حالات کے مطابق لیڈران اور حکمران نے اپنے میں تبدیلی نہیں لائی تو وہ نظام درہم برہم ہوگئے مغل سلطنت جس کی بنیاد بابر نے ڈالی اور اکبر کے زمانے میں یہ اپنے عروج پر تھا لیکن بعد میں ہندوستانی معاشرہ بھی تبدیل ہوتا گیا لیکن مغل حکمران خود میں تبدیلی نہیں لاتے گئے اور پرانے طریقہ سے لوگوں پر حکمرانی کرتے رے جس میں انکا نظام درہم برہم ہوگیا ۔تامل تحریک میں وہ اپنی طاقت وقوت کے بل بوتے پر نازان تھے اور تامل تحریک دنیا کی مظبوط تریں تحریکوں میں شمار ہوتا تھا کہ جن کے پاس جہاز بھی تھے خود کش لوگوں کی بڑی تعد تھا لیکن وہ تبدیل شدہ حالات میں خود کو آراستہ نہ کرسکے اور پرانی رش پر چلے جس میں نقصان یقیناانھیں اٹھانا پڑا اور وہ مظبوط تحریک بھی زوال پزیر ہوگیا بلوچ قومی تحریک بھی عروج وزوال سے گزرا ہے اس نے عروج بھی دیکھا زوال بھی دیکھا لیکن ہر زوال ایک سبق اور دَرس کی مانند ہوا آنے والے جہدکاوروں کو ماضی کے ہر ایک غلطی سے کچھ نہ کچھ سیکھ کر آگئے اپنی جدوجہد کا راستہ متعین کرلینا چاہئے تھا لیکن پھر بھی تحریکی عروج وزوال کو ہم قومی عروج کی طرف لے جانے کے بجائے زاوال کی طرف لے گئے ،یہ حقیقت ہے کہ ہردور اپنے سے پہلے والے دور کی پیداوار ہوتا ہے جب تک پہلے والے دور سے سبق سیکھ کرنئی شروعات نہیں کی جائیگی اس وقت تک نتیجہ ماضی سے مختلف نہیں ہوگا ،مثلاََ اکسویں صدی کے جدوجہد کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ 1948,1962,1958,1974اور1988کے جہد کا مطالعہ کیا جانا چاہئے اور وہاں کی کمزوریاں اور کوتایاں بھی سامنے رکھنا چاہئیے کیونکہ ان تمام جدوجہد کے بطن سے نئی جدوجہد نے جنم لیا ،لیکن ایک چیز کا خیال رکھا جاتا ہے کہ ماضی اور آج کے حالات میں بھی فرق ہے اور اس فرق شدہ حالات کو اگر نہیں سمجھا گیا تو تامل تحریک کی طرح نقصان اٹھانا بھی ناگزیر ہوگا یقیناًماضی کے تجربہ کو سامنے رکھتے ہوئے بلوچ قومی رہشوں اور موجودہ جدوجہد کا مُوجَدحیربیار مری نے بلوچ قومی تحریک کی بنیاد اکسویں صدی میں اکسویں صدی کے عین تقاضوں کے مطابق ڈال دیا اور قومی جدوجہد کو ایک علاقے سے نکالتے ہوئے حکمت عملی کو مدنظر رکھتے ہوئے پورے بلوچستان میں وسعت دی اور پہلی بار بلوچ قومی تحریک کی گونج ایک بلوچ خطے سے دوسرے خطے تک ایک ہی وقت میں سنائی دینے لگا اور یہ گونج آستہ آستہ بلوچ خطے سے نکل کر پوری دنیا میں سنائی دینے لگا،کیونکہ کسی بھی لیڈر کو جانچنے پرکھنے اور دیکھنے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ اس کے پس منظر اسکے اعمال کردار اور حکمت عملی ،ایمانداری ،مخلصی ، قومی کاز سے کمنٹمنت اور اسکی دوراندیشی دیکھاجائے ،بلوچ قومی تحریک میں حیربیار مری نے لیڈرشپ کا عملی ثبوت دیا ہے اس نے اپنے اعمال ،کردار ،ایمانداری ،خلوص اور حکمت عملی سے تحریک کو جدید دور کے تقاضوں سے آہم آہنگ کیا اور قومی جہد کو ایک نئی سمت دی ،پارلیمانی غلامانہ اور مراعات یافتہ دور میں حیربیار مری نے شعور و آقائی کے ساتھ سوچ سمجھ کر قومی آزادی کی جدوجہد کا راستہ اختیار کرتے ہوئے سوئے ہوئے خوابیدہ اور پارلیمانی مراعات اور پاکستانی غلامی میں مدہوش قوم کو جھنجھوڑکر ان میں جدوجہدی حرارت پیدا کی اور وہ جدوجہد ایک قومی منظم جہد کی شکل اختیار کرگیا لیکن درمیان میں قومی جہد پھر سے گروپ پرستی ،بے آصولی،بے لگامی،اور جزباتی پن،نمود ونمائش ،اور تنگ نظری کی نظر ہوا اور قوم کے نام پر اتحاد ہوئے اور وہ قومی اتحاد معمولی سے معمولی مسلوں کی وجہ سے نااتفاقی اور پھوٹ کا شکار ہوئے اور قومی جہد کا بہت بڑا نقصان ہوا ،اور اگر حقیقت کے آئینہ اور شیشہ سے دیکھا جائے تو آج جہدکاروں کی اپنی غلطیوں کی وجہ سے بلوچ قومی تحریک اس درخت کی مانند ہوگئی ہے جو صحرا میں تن تنہا پاکستانی چینی آفات کا مقابلہ کررہا ہے لیکن تن تنہا کب تک ان سختیوں کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے اس کے لیے بلوچ قومی جہد کا بنیاد رکھنے والا اورمُوجَدحیربیار مری نے جو اصولی اتحاد کا پیگام دیا ہے یہ عمل خود تن تنہائی کو ختم کر سکتا ہے اور جدوجہدکو پھر سے منظم اور متحد کرسکتا ہے جس سے بلوچ قوم پاکستانی چینی آفات کا مقابلہ بہتر انداز میں مقابلہ کرسکتے ہیں ۔کسی بھی طرح کہ دھوکہ دینے والے ،دروغ گو اور بہانہ جو انفرادی یا اجتماعی حوالے زوال کا سبب بنتے ہیں ایسے لوگ جہان بھی ہوں اجتماعی نقصان کا سبب بن سکتے ہیں اور ایسے لوگ اگر کسی جدوجہد کی نماہندگی کرتے ہوں تو وہ جہد تبائی اور بربادی کا بھی سبب بن سکتا ہے اور اسیے لوگ کسی بھی طرح جدوجہد کو کامیابی سے چلانے کی بھی مخالفت اور سازشیں کرتے ہیں اسیے لوگ ہر جگہ موجود ہونگے اور ان سے باخبر رہتے ہوئے بلوچ قومی یکجہتی کے پروگرام کو آگئے لے جانا چاہئے کیونکہ گروئی اور انفرادی حوالے بلوچ قوم پاکستان اور چین کا موجودہ اسٹیٹس کو کے مطابق مقابلہ نہیں کرسکتا ہے ،اسکا مقابلہ قومی سوچ اور قومی طاقت سے کیا جاسکتا ہے اور اسکے لئے بلوچ قومی لیڈر حیربیار مری کا اتحادی اور یکجتہی کا نسخہ بہتریں حل ہے اور یہ اتحاد اور یکجتی ماضی سے سبق سیکھ کر نئے سرے سے شروع کیا جانا چایئے تاکہ ماضی کی نادرستیاں اور غلطیاں مستقبل میں نہ دہرانا پڑے۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز