جمعه, اکتوبر 11, 2024
Homeآرٹیکلزتربت یونیورسٹی کرپشن کی زد میں ، طلبا کا مستقبل داؤ...

تربت یونیورسٹی کرپشن کی زد میں ، طلبا کا مستقبل داؤ پر

تحریر ـ عالیہ شاہ

   ھمگام آرٹیکل

دنیا کے تہذیب یافتہ قومیں جب ترقی کرتے ہیں تو سب سے پہلے اپنی قوم پر توجہ دیتے ہیں ان پر پہلا فرض ان کی قوم کی ترقی و خوشحالی ہوتی ہے۔ ان قوموں کی ترقی کی وجہ بھی یہی ہوتا ہے کہ وہ ہر چیز میں سب سے پہلے اپنے قوم کے لوگوں کو ترجیح دیتے ہیں۔

دنیا میں وہی قوم آگے بڑھتے ہیں جو اپنے قوم کے لوگوں کو آگے بڑھنے کا موقع دیتے ہیں، اپنے وجود کو تسلیم کروانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ تاکہ دنیا میں ان کا بھی شمار ترقی یافتہ ممالک اور قوموں میں شامل ہو جائیں۔۔۔

چائنا ایک ایسا ملک ہے جو ہر ملک میں اپنی کاروباری مراکز میں سب سے پہلے اپنے قوم کے لوگوں کو موقع دیتی ہے تاکہ دنیا کے بیشتر ممالک میں ان کا ہی اجارہ داری ہو، صرف چائنا ہی کیوں بلکہ دوسرے اقوام بھی یہی کرتے ہیں، ایران سے اچھی مثال اور کیا ہو سکتی ہے۔ تعلیمی اداروں پر نظر ڈالیں تو یہ واضح نظر آتی ہے کہ وہ اپنے قوم کو اپنی زبان کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔

آج کا موضوع ایران، چائنا یا کسی اور ملک کی تعریف اور خوبیاں بیان کرنا نہیں ہے۔ بلکہ ہمارے موجودہ دؤر کی غیر ترقی یافتہ اور بے اشعور قوم کی خامیوں پر ہے۔ جن میں جھوٹ اور خود غرضی کی پالیسی سب سے زیادہ واضع ہے۔

تربت یونیورسٹی کی شناخت بطور ایک ایسے تعلیمی ادارے سے ہے جو بلوچ قوم کے لیئے بہت اہمیت رکھتی ہے اور خاص کر مکران کے لوگوں کے لیئے یہ نہ صرف ایک تعلیمی ادارہ ہے بلکہ اہل مکران کے نوجوانوں کا آنے والا کل ہے ان کا مستقبل بھی ۔ وہاں سب اپنی جگہ پر درست ہیں تربیت اور تعلیمی نظام بھی متاثرکن ہیں اعلیٰ درجے کی تعلیم بھی دیتے ہیں مگر یہ سب کچھ کل کی بات لگتے ہیں۔۔۔ کیونکہ آج افسوس کی بات یہ ہے کہ وہاں قابض پاکستانی فوج اور پاکستان کی بلوچستان بارے containment کی منفی پالیسیاں حد سے زیادہ بے جا مداخلت کر رہے ہیں۔

کل کا موضوع تربت یونیورسٹی میں پوسٹ اور عہدوں کے تھے، عہدے اور پوسٹ ان کو ملے جن کی فیملی، رشتے دار، خاص و ناس ہوتے تھے، ان کو نہیں ملے جو صحیح معنوں میں لائق اور حقدار ہوتے تھے، مگر آج کا موضوع نوجوانوں کی مستقبل کا ہے۔

 پہلے پہل طلباء وطالبات ٹرانسپورٹ کے لئے پریشانی تھے کیونکہ ایک عجیب و غریب پالیسی یہ تھی کہ، طلباء و طالبات کے لیے بس کی سہولیات تو تھی مگر انہیں نہیں مل سکی ! کیوں؟ کیونکہ بس کے لیے بھی پالیسی ادارے کی جانب سے ہے۔ سب سے پہلے درخواست جمع کروائی جائے پھر درخواست کی تصدیق کی جائے، کیا واقعی ہی طلباء کو بس کی ضرورت ہے، تو ادارے کے قابل آفسران کے پاس جا کر ہاتھ جوڑ کر اپنا مجبوری واضح کرنا پڑتی ہے، نہیں تو بس کی سہولت نہیں مل سکتی ہے۔ سارے اداروں کے آفسران %95 بلوچ ہیں اور تربت شہر کے ہی واقف اور بڑے جانے مانے لوگوں میں سے ہیں، ان سب کو اچھی طرح سے معلوم بھی ہے کہ تربت یونیورسٹی شہر سے کافی دور گِنہ میں واقع ہے جہاں سے آنا جانا کتنا مشکل ہے، مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے اکثر طلباء و طالبات کیلئے کرائے کے گاڑیوں سے آنا جانا بہت مشکل ہے۔ کرائے کی گاڑیوں کا کرایہ 2000/0300 روپے سے اوپر ہوتا ہے ہر کسی کیلئے یہ آسان نہیں ہوتا۔

 جو بچے تربت اور نزدیکی علاقوں میں رہتے ہیں وہ گاڑیوں سے آ جا نہیں سکتے تو وہ اتنا فیس اور کرایہ کہاں سے لائیں گے؟ جس سے بس کا سالانہ کرایہ 250 تھی آج بڑھا کر 4000/5000 کر دیا گیا ہے، سمسٹر فیس ایک سال 16000 اور اس سے بھی زیادہ کیا گیا ہے ۔۔

 تربت یونیورسٹی کی انتظامیہ وی سی جان محمد صاحب، سیکورٹی افیسر شاہ میر صاحب اور ریجسٹرار افیسر گنگوزار صاحب اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ تربت یونیورسٹی کے 85 فیصد طلباء وطالبات غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں ، اگر میں 95 فیصد بھی بولوں گی تو غلط نہیں ہوگا۔ غریب طلباء اگر اتنا فیس دے سکتے تو وہ بہتر سے بہتر یونیورسٹیوں کے انتخاب کرتے۔ تربت اور یہاں کے لوگوں کی معاشی زرائع اور سرمایہ کہاں سے اور کیسے آتا ہے یہ سب جانتے ہیں۔

 اگر یہ فیس ایچ اے سی نے بڑھا دیا ہے۔تو سب سے پہلے وی سی صاحب کو چاہیے تھا کہ وہ ان بچوں کے بارے میں سوچھتے اور انکار کر دیتے، نہ کہ یہ علان کرتے کہ سارے فیسوں میں اضافہ ہوا ہے سیمسڑ فیسز سے لے کر ٹرانسپورٹ کرایہ اور ھاسٹل کا کرایہ بھی بے شمار بڑھا دیے گئے ہیں۔

اور تو اور، اتنے دنوں سے اس خون جما دینے والی سردی اور بارش کے باوجود تربت یونیورسٹی کے طلباء و طالبات فیسوں میں بےتحاشا اضافے کیخلاف سراپا احتجاج ہیں، کئی دنوں سے وہ تربت یونیورسٹی کی مین گیٹ کے سامنے احتجاجی دھرنا دے رہے ہیں، لیکن کسی کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگتی۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ طلبا و طالبات کی زندگیاں کلاس روم میں پڑھائی کے بجائے سڑکوں پر احتجاج و دھرنوں میں گزرجاتی ہیں۔ آئے روز طلبا و طالبات کو مختلف نوعیت کے مسائل میں الجھا کر ایک منظم منصوبے کے تحت تعلیم سے دور رکھا جارہا ہے۔ تربت یونیورسٹی مکران کا سب سے بڑا جامعہ ہے جو ہمارے آنے والی نسلوں کی مستقبل کا ضامن ہے لیکن بدقسمتی سے اس یونیورسٹی کو تباہی کی جانب دھکیلا جارہا ہے۔ ہزاروں طلبا و طالبات کے مستقبل کو داؤ پر لگایا جارہا ہے۔

کہنے کا مقصد بس اتنا ہی ہے کہ اگر ہماری اپنی ہی قوم کے باشعور لوگ اپنے ہی بچوں کے مشکلات کو کم کرنے کی بجائے ان کو بڑھائیں گے تو ہم پاکستانی حکومت سے کیا امید رکھ سکتے ہیں؟

قابض پاکستانی حکومت کے ناجائز پالیسیوں کو اپنے قوم کے لوگوں پر آزمانا بند کر دیا جائے، ایف سی اور دوسرے اجنسیوں کے پالیسیوں کو خود پر اس قدر حاوی نا ہونے دیں جس کی وجہ سے بلوچ نوجوانوں کی تعلیم و تربیت تباہ ہوجائے، ایسی پالیسیز اور غیروں جیسا سلوک سے گریز کیا جائے جس کی وجہ سے اس قوم کو مزید نقصان اور پسماندگی کا شکار ہونا پڑ جائے، پنجاب کے یونیورسٹیوں میں بلوچ طلباء اپنے حق کے لیے ریلی نکالنے کی وجہ سمجھ میں آتی ہے، کیا اب اپنے ہی شہروں میں اپنے ہی لوگوں کے خلاف بھی ریلی نکالیں؟

اپنے قوم کے نوجوانوں کے لیے آسانی پیدا کرنا سب سے بڑی اور اہم ذمہ داری ہے نہ کہ انہیں مزید ٹارچر کرنا۔ قابض پاکستان کو اس کی کیا پرواہ بلوچ قوم کے نوجوان پڑھے یا نہ پڑھے بس انکا مقصد یہی ہے دنیا کے سامنے یہ ثابت کرنا کہ مقبوضہ بلوچستان ایک پسماندہ صوبہ ہے وہ خود مختاری کے قابل نہیں ہے، دشمن کو یہ موقع کبھی نہیں دینا کہ مقبوضہ بلوچستان کو ایک صوبہ ثابت کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔

بلوچستان ایک ملک ہے اور یہاں بھی شعور یافتہ لوگ ہیں، بلوچستان کے ہر بچے میں ہنر ہے، بس انہیں تراشنے کی ضرورت ہے ان کے ساتھ کھڑا ہوکر ان پر توجہ دینا چاہیئے، تربت یونیورسٹی پورے مکران کے طلباء و طالبات کے لیئے امید کی ایک کرن ہے، جو بچے کوئٹہ اور اسلام آباد جیسے جگہوں میں پڑھنے کے لیئے نہیں جا سکتے ان کیلئے تربت یونیورسٹی میں آسانیاں پیدا کرنا چاہیئے تاکہ بلوچستان میں نوجوان بے تعلیم یا کم تعلیم یافتہ نہ رہ جائے۔ یا وہ احساس کمتری کے شکار نہ رہیں یا ان میں کم سے کم یہ احساس پیدا نہ ہو کہ وہ پڑھنے کے بجائے گاڑیوں کا ڈرائیور بن جائیں کیونکہ مہنگی پڑھائی کے لئے انکے پاس اتنے معاشی زرائع کہاں؟ ویسے بھی یہاں کے نوجوان پڑھنے کے بعد دکاندار یا ڈرائیور بن جاتے ہیں۔

 کیچ تربت چوںکہ مکران ڈویژن کا ہیڈ کواٹرز ہے لیکن یہاں نوکریوں کے حوالے Nepotism عروج پر ہے یہاں بڑے افسران اپنے محکمے کے خالی پوسٹوں پرفقط اپنے رشتہ داروں کو لگاتے ہیں۔ ڈین ہو یا دوسرے افسران، بڑے بڑے پوسٹوں پر اپنے بیٹے یا بیٹیوں یا اپنے سیاسی برادری کے لوگوں کو لگاتے ہیں۔ خدا را فقط اپنے بچوں کو نوکری دینے کی خاطر آنے والے بچوں کی مستقبل کو اندھیرے میں نہ ڈالیں۔ مگر آج تربت یونیورسٹی کے قابل احترام آفسران نے تو غریب بچوں کے لیے پڑھائی بھی مہنگی کر دی اور یہ امید بھی ختم ہونے جا رہی ہے۔

تربت یونیورسٹی سب سے بہترین یونیورسٹیوں میں سے ایک ہے تو اس کی وجہ یہی بلوچ بچے ہیں جنہوں نے اس یونیورسٹی کو اس قابل بنایا ہے آج اگر بڑی تعداد میں یہ داخلہ نہ لیتے تو یہ یونیورسٹی ہوتی ہی نہیں۔ مگر آج اس منفی رویے کی سبب ایسا نہ ہو کہ تربت یونیورسٹی بس نام کا یونیورسٹی رہ جائے، ۔ کبھی سوچ کر دیکھیں یہ بچے کتنے دور سے یونیورسٹی پڑھنے کیلئے آتے ہیں، بیشتر تو ہاسٹل میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ان بچوں اور بچیوں کو ڈین اور افسران کی طرف سے یہ مل رہا ہے کہ فیس آسمان کو چھو رہے ہیں ۔ آپکے ہاتھوں میں مکران کی مستقبل ہے، کوئی مزاحیہ کھیل نہیں۔

حرف آخر: یونیورسٹی آف تربت کو قوم کی ترقی کا مرکز بنایا جائے۔ یونیورسٹی آف تربت کو تعلیم اور دانشوروں کا مرکز بنایا جائے۔ صرف اچھی تعلیم دینا ہی ذمہ داری نہیں ہوتی بلکن قابل طلبا کو مناسب موقع دینا بھی ادارے کی ذمہ داری ہے۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز