چهارشنبه, اکتوبر 2, 2024
Homeآرٹیکلزتنقیدی عمل کی ضرورت اورہماری ذمہ داریاں :تحریر:طیب بلوچ

تنقیدی عمل کی ضرورت اورہماری ذمہ داریاں :تحریر:طیب بلوچ

موجودہ بلوچ جہد میں جب ابتدائی کامیابیوں کو لے کر رومانیت اور ضرورت سے زیادہ رجائیت کا دور ختم ہوا تو تضادات ، قومی جہد سے ماوراء اعمال اور عوامی حساسیت کو لے کرہمارے سیاسی و عسکری رویے خوفناک اژدھے کی مانندمنہ پھاڑے سامنے کھڑی تھیں، ایسی قومی تحریکیں کہ جہاں عملی و نظریاتی جہد اور اس سے منسلک تنظیم کاری ٹھوس سائنسی بنیادوں پہ استوار نہ ہو اور جہاں جہدکا سار ا نحصار شعوری و فکری وابستگی کے بجائے روایتی عوامی سیاسی مزاج پہ ہو وہاں ایسے رومانوی فضاء کے بیچ تلے ایسے تلخ اور بھیانک سچائیوں کو عوام کے سامنے لانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ایسے سیاسی فضاء میں روایتی و رومانوی کرداروں کی یہ بھر پور کوشش ہوتی ہے کہ اصل صورت حال کو (جو اپنی حقیقی حالت میں انتہائی بری اور افراتفری سے بھر پور ہوتی ہے)عموم سے پوشیدہ رکھ کر رومانیت کی کھوکھلی فضاء کو جون کا تون برقرار رکھا جائے کیونکہ ایسے کراداروں کاوجود اور ہیروازم کا سرور ایسے ہی کھو کھلے اور خیالی دنیاؤں کی بدولت ممکن ہے،عوامی سطح پہ بلند و بانگ دعوؤں کے باوجود اندروں خانہ یہ دلیل دی جاتی ہے کہ اصل صورت حال کی آگاہی سے مایوسی پھیلے گی لوگ بدل ہوں گے لہٰذا عوامی سطح پہ ایسے باتوں سے بچا جا ئے۔حتٰی الامکان یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ سب کچھ معمول کے مطابق اور امید افزاء ہے گر چہ بعض معاملوں میں پانی سر سے اونچا ہو رہا ہوتا ہے، یہ دلیل کسی حد تک اس وقت کار گر ہوتی اگر کوئی اپنی کمزوری اور غلطی کو تسلیم کر کے آئندہ اس سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرے مگر اس کے بر عکس اگر یہی منفی رویے اور اعمال کہ جن سے براہ راست جہد اور اس سے منسلک عوام متاثر ہو رہے ہوں آپ کی مستقل پالیسیاں بن جائیں اور ان پالیسیوں سے ابھری نفرت اور عوامی دوری بحیثیت مجموعی پوری قومی جہد سے دوری کا باعث بن رہی ہو تو آپ کا کردار و عمل بظاہر نظریاتی اور قومی ہونے کے باوجود اپنی اصلی شکل اور مجموعی قومی نتائج کے اعتبار سے دشمن کیلئے ایک بلواسطہ سہولت کار کے ہوتے ہیں۔اب سوال یہ پیدہ ہوتا ہے اگر ایسی پیچیدہ صورت حال پیدہ ہو جائے تو حقیقی جہد کار کونسا راستہ اختیار کریں کہ اس مجموعی تباہی سے بچ سکیں اور اس کے قومی جہد پر کم سے کم منفی اثر پڑ سکے،اگر یہ تضادات محض نظریاتی و علمی ہوتے تو ایک حد تک ان کو عوامی سطح اور سیاسی کشمکش سے دور رکھا جا سکتا تھا مگر اگر تضادات اور متنازعہ اعمال ٹھوس مادی وجود رکھتے ہو ں اور ان سے متاثر بھی ہمارے جزولاینفک ہوں اور اس کے بُرے اثرات بھی براہ راست قومی جہد پہ پڑ رہے ہوں تو کیا ان سے محض اس لئے صرف نظر کیا جاسکتا ہے کہ فلانے نے قربانی دی ہے یا کہ اس سے قوم مایوس ہو گا،ایسے پیچیدہ صورت حال میں کہ جہاں ایک کا منفی عمل سب کا منفی عمل تصور ہو تا ہے اور اس کے مضر اثرات براہ راست قومی جہد پہ پڑ رہے ہیں تو حقیقی قومی جہد کا روں کے پاس کون سا مہذب،علمی و سیاسی راستہ رہ جا تاہے مہربانی کر کے کوئی علمی و سیاسی استاد اس کی رہنمائی کرے،اگر مسائل اور منفی رویوں کا تعلق صرف ان تنظیموں اور ان کے ماتحت ذیلی اداروں سے ہو تا تو شاید سینئر دوست ان معاملات پہ کھل کر عوامی سطح پہ تنقید اور اپنی نا پسندیدگی کا اظہار نہیں کر تے گر چہ درپردہ ہمیشہ طرح یہ کوشش ضرور کرتھے کہ معاملات صحیح لائن پہ آئیں مگر چونکہ ان منفی اعمال کا تعلق براہ راست عوام سے ہے اور اس کے متاثریں وہ غریب بلوچ عوام ہیں کہ جن کی حمایت و تعاون کے بل پر یہ جہد قائم ہے تو ایسے سنگین صورت حال میں مداخلت لازمی امر بن جاتی ہے اگر قومی جہد سے منسلک ایک گروہ کی بداعمالیوں کی وجہ عوامی بیزاری اور مایوسی بڑھ رہی ہو تو جہد سے وابسطہ دوسرے ادارے کہ جن کیلئے عوامی حمایت و ہمداری سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں تو وہ کیا طریقہ اختیار کرے، سمجھانے بجھانے سے جب کوئی اپنا قبلہ درست نہ کرے تو اگلا قدم کیا اٹھائے جو کہ قومی و سیاسی لحاظ
سے مہذب کہلائے،اگر ان معاملات سے لاتعلق رہ کر مکمل خاموشی اختیار کرے تو اس سے دو نقصانات ہونگے ایک بڑا اور دوسرا نسبتاً چھوٹا بڑا نقصاں یہ ہو گا کہ کوئی بھی جہد عوامی حمایت کے بغیر کامیاب نہیں رہتی ہے اگر منفی اعمال عوامی مایوسی اور دوری کا باعث بن رہے ہیں تو ان کے سد باب کی اشد ضرورت ہے ورنہ پوری جہد کی عمارت دھڑام سے زمین بوس ہو جا ئے گی اگر کو ئی کشتی میں سوراخ کر رہا ہو توآپ کسی بھی طور خاموشی نہیں رہ سکتے ہیں اگر ایسی صورت حال میں خاموشی اختیار کی گئی تو کشتی کی تباہی مقدر ہے۔دوسرے چونکہ شروع میں سب ایک دوسرے سے وابستہ رہے ہیں اس لئے ایسی منفی اعمال پہ خاموش کا مطلب ان کی غیر اعلانیہ تا ئید وحمایت ہے پھر عوامی نفرت بلا تفریق سب کیلئے یکساں ہو گی ایک قومی جہد کار ادارہ آپ کی گنے چنے اچھائیوں میں شراکت کا خواہش مند نہیں تو پھر آپ کے ان منفی اعمال کا بھارگراں اپنے سر کیوں لے کہ جو انہیں قومی جہد کیلئے زہر قاتل سمجھتا ہے آپ کیلئے عوام اور ان کی حما یت و ہمدردی شاید کوئی معنی نہ رکھتے ہو مگر دوسروں کیلئے ان سے بڑھ کر کوئی متاع حیات نہیں اتنے بڑے بوجھ کو اٹھانے کی نہ بی ایل اے اور دوستوں میں حوصلہ ہے نہ خواہش لہٰذا مجبوراً ان دو وجوہات کی وجہ سے خاموش رہنا ممکن نہ رہا ورنہ پہلے سے مشکلات و محاذ کچھ کم نہ تھے جو یہ بار اٹھانا پڑا۔اب ایسی صورت حال میں چند باتیں بے انتہا اہم بن جاتی ہے پہلی کہ یہ سب محض الزامات اور ہوائی باتیں ہیں میرے خیال میں اس کے سب سے بڑے گواہ مکران و آواران کے عوام خود ہیں۔ جھوٹ کسی کے پوشیدہ عمل پہ بولا جا سکتا ہے ایسے معاملے پہ نہیں جو کہ عوامی سطح پہ سب کے علم میں ہو ورنہ جھوٹ بولنے والے کا منہ خود ہی کالا ہو جا تا ہے۔ مثلاً اگر میں کسی پہ لوگوں کے سامنے الزام لگاؤں کہ اس نے چوری کی ہے تو شور شرابہ اور واویلہ کرے گا اور فوراً لڑائی جھگڑے پر تیار ہو گا مگر اگر میں یہ کہوں کہ کل بازار میں فلانے کے دکان میں آپ نے چوری کی ہے اور رنگے ہاتھوں پکڑے گئے ہو تو اگر اس نے یہ کام نہیں کیا ہے تو وہ فوراً بغیر کسی شور شرابے کے کہے گا کہ چلو سب کے سامنے اسی دکان اور بازار میں ابھی سچ اور جھوٹ کا فیصلہ ہو جاتا ہے ورنہ الزام کے سچائی کی صورت میں اسی نکتے پہ جھگڑا اور شور کرے گا کہ لوگوں کے سامنے کیوں کہا ہے۔ اب یہ مسائل تو ہیں مگر ایک رائے ہے کہ ان کو عوامی سطح پہ نہ اٹھایا جائے بلکہ باہمی طور پر مل بیٹھ کر حل کیا جائے یہ ان لوگوں کی رائے ہے جنہیں اختلافات کا علم ہی ان کی قومی سطح پہ اٹھانے کے بعد ہو ا ورنہ تو کافی عرصے دوست اصلاح کی کوششوں میں لگے ہو ئے تھے جب بات بنی نہیں تو مجبوراً قوم کو آگاہ کرنا پڑا۔جب کسی مسئلہ پہ خاموش رہنا قومی و ادارتی ہر دو حیثیت سے نقصان دہ ہو تو رو کنے کیلئے بطور آخری حربہ عسکری و سیاسی ذرائع کا استعمال ناگزیر ہو جا تا ہے بطور ایک عسکری ادارہ بی ایل اے کیلئے ان منفی و رد انقلانی اعمال کوبطور آخری حربہ بزور قوت روکنا اصولی طور پر بالکل جائز تھا مگر ایک عسکری ادارہ ہو نے کے باوجود بی ایل اے اور اس سے منسلک دوستوں نے قومی معاملے میں طاقت کے بجائے ایک مکمل شعوری ومہذب سیاسی راستے کا انتخاب کیا جو کہ بلوچ قومی سیاست میں بالکل نیا ہے۔ اپنا مقدمہ اور اصل مسائل کو لے کر اس بنیاد کی طرف رجوع کیا کہ جس کے دم پہ یہ جہد قائم ہے۔عام سیاسی کھینچا تھانی کے بجائے اپنا مقدمہ سیاسی علمی بحث کی صورت میں رکھا اب اس سے بڑھ کر مہذب اور پر امن اور کوئی سیاسی طریقہ ہو سکتا ہے۔کوئی بھی اپنے جھوٹ اور بد اعمالیوں کو لے کر قومی عدالت جانے کی جرات نہیں کر سکتا۔منافقت اور جھوٹ کے بجائے اپنے لوگوں کواصل معاملات سے آگاہ کر نا کیا کوئی جرم ہے ہم ہمیشہ کی
طرح قوم کو بیوقوف اور جاہل سمجھ کر کیا قومی جہد کو کامیابی سے ہمکنار کر سکتے ہیں۔اگر اختلاف پیدا ہو جا ئے تو بجائے خاموش رہ کر ایک دوسرے کے گلے کاٹنے کے بجائے قوم کی رہنمائی ،کیا سب سے زیادہ مہذب و معقول سیاسی راستہ نہیں۔بلوچ تاریخ میں یہ پہلی بار ہے کہ پیچیدہ اور اختلافی معاملات میں ایک ادارے نے رہنمائی کیلئے قوم سے رجوع کیا ہے اور اس سے ان کی صداقت ظاہر ہوتی ہے بجائے اندروں خانہ کھینچا تھانی،لا حاصل سیاسی کشمکش،لڑائی جھگڑے اور جھوٹی امید و آسرے کے اپنا مقدمہ عوام کے سامنے پیش کیا ہے کیونکہ یہ جہد اپنے فائدے اور نقصانات کو لے کر عوام کی جہد ہے۔عوام کو بیوقوف اور دھوکے میں رکھ کر یہ جنگ نہیں جیتی جا سکتی ہے۔عدالت چاہے عوامی ہو یا کہ کوئی ریاستی جانے میں وہی فریق پہل کرے گا جسے یقین ہو کہ وہ حق پہ ہے۔ایک قومی جہد میں قوم کو اعتماد میں لینے اور اس سے رہنمائی حاصل کرنے سے بڑھ کر اور کونسا مہذب سیاسی عمل ہو سکتا ہے۔شروع میں دوستوں نے روایتی میڈیا میں باقاعدہ کالموں کی شکل میں قوم کے سامنے اصل حقائق کو رکھا۔منفی اعمال سے لے کر رد انقلابی رویوں اور محدود سیاسی سوچوں کو موضوع بحث بنایا مگر دوسری طرف مکمل خاموشی رہی اس خاموشی کی وجہ یہ نہیں تھی کہ دوسری طرف ایسے علمی و سیاسی استادوں کی کمی تھی کہ جن کی ان موضوعات پہ گرفت نہیں تھی بلکہ خاموشی کی وجہ ان مضامین میں اٹھائے وہ سوالات تھے کہ جن کا تعلق سیاسی و علمی بحث و تشریح سے ہٹ کر ان زمینی منفی اعمال سے تھا کہ جو زمین پر اپنا ٹھوس وجود رکھتے تھے( اورابھی تک رکھتے ہیں)کہ جن کا جواب یا جن سے انکار کسی علمی ،نظریاتی و سیاسی تشریح سے ممکن نہیں تھا تو لا محالہ خاموشی کو علاج سمجھا گیا شاید یہ امید تھی کہ دوستوں کوہمیشہ کی طرح سمجھا بجھا کر خاموش کر لیا جائے گا کیونکہ زیادہ تر معاملات کا تعلق براہ راست بی ایل اے اور اس کے ہم خیال دوستوں سے نہ تھا اسی لیے انہیں قوی امکان تھا کہ معاملات کو جون کا توں رکھنے میں کامیابی ہو گی۔چاہئے تو یہ تھا اس عمل کو ایک مکمل مہذب سیاسی مکالمے کی شکل دیتے اپنی صفائی اور اصلاح کے ساتھ ساتھ دوستوں کی کمزوریوں کی نشاندہی کرتے تاکہ ایک مثبت سیاسی مقابلے کی فضاء پیدا ہوتی اور عوام کا اس سیاسی جہد پہ اعتماد بڑھتا مگر شروع ہی سے قومی سیاست میں تنقیدی عمل کو ایک ناقابل معافی جرم بنا کر پیش کیا گیا۔قومی بندوق سے کسی بیگناہ کا قتل قابل گرفت نہیں مگر اس جرم سے پردہ ہٹانا قابل گردن زنی ہے ، اس سے قوم مایوس ہو گا اور دشمن کو فائدہ ہوگا۔قومی رازوں کا واویلہ تو ہم بہت کرتے ہیں مگر اس ظاہری قومی نفرت کی ہمیں خبر نہیں جو ہمارے خلاف آندھی کی رفتار سے بڑھ رہی ہے۔روایتی میڈیا کے بعدجب معاملات سوشل میڈیا میں آگئے تو شروع دن سے اس کو متنازعہ کرنے کی کوشش کی گئی جب بات آگے بڑھتی گئی تو باقاعدہ گالی گلوچ کا بازار گرم کیا گیا۔یہاں بیٹھے بھی ہیں ،گالیاں بھی دے ہیں،لکھتے بھی ہیں مگر اس عمل سے سراسر انکاری ہیں۔آج تک کسی نے ان الزامات کے وجودسے انکار نہیں بس یہ کہا گیاکہ ان کا عوامی سطح پہ بیاں کرنا صحیح نہیں ہے۔مگر انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ایسے مہذب سیاسی عمل کو ہمارے چند عاقبت اندیش ہمدردوں نے جذبات کی رو میں بہہ کر اخلاقیات سے عاری عام سیاسی مقابلہ بازی اور اقتداری رسہ کشی کا کھیل ثابت کرنے میں ان کی بھر پور معاونت کی۔ وہ اس چیز کو سمجھنے سے قاصر رہے کہ یہ لیڈری ،مراعاتی،اقتداری ذاتی ضد و عنا دکا مقابلہ بازی نہیں کہ ایک دوسرے کوہر جائز نا جائز طریقے سے نیچادکھایا جا سکے اور اخلاقیات کی ساری حدوں کو محض اس جواز کے بہانے پار کیا جائے کہ فریق مخالف ان اخلاقی دائروں سے آزاد ہے۔ جب بی ایل اے اور اس سے منسلک دوستوں نے ان مسائل کو لے کر مہذب سیاسی راستے کا انتخاب کیا تو بطور ہمدرد و حمایتی اس
راستے کی پیراوی ہم سب پہ لازم ہے ورنہ ہم بھی اس مہذب سیاسی راستے کے ساتھ وہی کر رہے ہیں جو وہ لو گ قومی جہد کے ساتھ کر تے رہے ہیں۔یہاں بی ایل اے اور اس سے منسلک دوستوں کا مقصد کسی کو ہیرو بنانا یہ کہ زیرو بنانا نہیں نہ ان کو کسی لیڈری اور تمغے کی خواہش ہے بلکہ پیچیدہ و اختلافی مسائل میں قوم کو اعتماد میں لینا اور اس سے رہنمائی حاصل کرنا ہے کیا ہمارا طریقہ اس سے موازنت رکھتا ہے۔ ہمیں اس سارے معاملے کو اس کی اصل صورت میں سمجھنا ہو گا یہ ایک عام سیاسی مقابلہ بازی نہیں کہ ہر حال میں اور ہر مثبت منفی عمل کو لے ترکی بہ ترکی جواب دینا ہے اور ہر حال میں کسی کو ولن اور کسی کو ہیرو بنانا ہے اور نہ یہاں اختلافی مسئلہ لیڈری اور واجہ گری پہ ہے بلکہ اداروں پہ قبضہ اور لیڈری کا سفر تو پچھلے پانچ چھ سالوں سے جاری تھا نا پسندیدگی اپنی جگہ مگر اس مسئلے کو بنیاد بنا کر کوئی سیاسی سوال کھڑا نہیں کیا گیا بلکہ ایسے منفی اعمال پہ وسیع تر قومی مفاد میں در گزر کیا گیا مگر جب عوام جو اس قومی جہد کی جڑھ ہے کو لے کر منفی اور نقصاندہ پالیسیوں کا ایک لامتناہی سلسلے کا آغاز کیا گیا تو اس مسئلے کی سنگینی کو دیکھ کر سیاسی تضاد یا تصادم کا آغاز ہو ا اس ناگزیر صورت حال میں اصل مسائل کو لے کر عوام سے رجوع کرنا ضروری ہو گیا ایک تو عوام کو آگاہ کرنا ضروری تھا اور ہے کہ بی ایل اے اور اس سے منسلک دوست ان رد انقلابی پالیسیوں سے متفق نہیں دوسرے عوامی سطح پہ سیاسی و علمی کارکن ان منفی اعمال کی نقصانات کو لے کر ایک دباؤ بنائیں تاکہ یہ گروہ ایسے عوام دشمن پالیسیوں سے باز آجائیں۔عوام سے رہنمائی اور رجوع سے یہ بات صاف ظاہر تھا دوست اور تمام مخلص جہد کار ان سے مایوس ہو چکے اور یہ اس حالت میں پہنچ چکے ہیں جہاں سے اصلاح ممکن نہیں تو مخاطبیں براہ راست قوم ہے یہ ایک مکمل طور پر مہذب سیاسی اور بلوچ قومی جہد کی سیاست میں ایک مکمل نیا رویہ ہے ورنہ اس پہلے سارے مسئلے اور اختلافات میں کسی نے قوم کو اس قابل نہ سمجھا کہ اسے اعتماد لے اور اس سے رہنمائی کا طالب ہو۔جب آپ کسی سیاسی مسئلے پر قوم سے مخاطب ہوتے ہیں اور اس سے رہنمائی کا طلب گار ہوتے ہیں کہ صحیح اور غلط کا فیصلہ کرے تو اس کیلئے مکمل مہذب سیاسی و علمی رویہ اپنانا لازمی ہے جب مہذب سیاسی راستے کا انتخاب کیا ہے تو اس کی حدود کی پاسداری بھی آپ کی ذمہ داری ہے فریق مخالف سے اختلاف ہی ان قوم دشمن اقدامات سے ہے جب وہ اپنے عمل سے قومی حساسیت کا احساس نہیں رکھتے ہیں اور عسکری حوالے سے قوم کو۔۔۔سویلیں سمجھتے ہیں تو سیاسی و علمی بحث میں قوم کی عزت و وقار کا خیال کیونکر رکھیں گے۔لہذا ان کے سیاسی و اخلاقی رویوں پہ جذباتی ہو کہ یا ان کو جواز بنا کر اسی رویے اور اخلاقی معیار پہ آناکسی طور ایک صحت مند سیاسی رجحان نہیں بلکہ اس مہذب سیاسی راستے کی بندش میں ان کی غیر ارادی معاونت ہے۔ہمیں چاہئے کہ ہم اختلافات کی نوعیت کو سمجھیں قوم سے رابطہ اور ان سے رہنمائی کی سیاسی علمی ذمہ داریوں کا احساس کریں اپنے اندر صبر و برداشت کا مادہ پیدہ کریں جب سیاسی مسائل پہ قومی کو اعتماد میں لینے اور اس سے رہنمائی کے طلب گار ہیں تو ذاتی و گروہی تنقید و دشنام طرازی کا سامنا سیاسی استقامت سے کریں ورنہ اس سے بہتر ہے پھرخاموشی اختیار کریں کیونکہ پھر وہ مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے جس کیلئے یہ سفر شروع کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز