کوئٹہ (ہمگام نیوز)بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں جاری فوجی کاروائیوں کو ریاست کی جانب سے جاری ’خاموش نسل کشی کی کاروائیاں‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ فورسز کی طرف سے جاری مسلسل کاروائیاں روزانہ کی بنیاد پر درجنوں لوگوں کی موت و گمشدگی کا سبب بن رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ آواران، تربت، دشت ، مستونگ ، پنجگوراور کوہِ سلیمان کے علاقوں میں جاری کاروائیوں سے کئی بلوچ فرزند اغواء اور قتل کیے جا چکے ہیں۔ گزشتہ مہینے گچک میں ایک درجن لوگوں کے ساتھ اغواء ہونے والے وژدل ولد فقیر نامی نوجوان کی مسخ شدہ لاش برآمد ہوئی، جسے فورسز نے شدید تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ اس کے کاہان اور ڈیرہ غازی خان میں بھی فورسز نے دوران آپریشن متعدد لوگوں کو گرفتار کرکے اپنے خفیہ حراستی کیمپوں میں منتقل کردیا، نہتے لوگوں کے اغواء سلسلہ دو دہائی سے زائد کے عرصے سے جاری ہے جس کے نتیجے میں ہزاروں لوگ لاپتہ کیے جا چکے ہیں اور تین ہزار سے زائد بلوچ سیاسی کارکنوں کی مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوئی ہیں۔گزشتہ ایک عرصے سے تربت شہر کے تعلیم سے وابسطہ ٹیچرز اور اسٹوڈنٹس باالخصوص فورسز کے نشانے پر ہیں۔ گزشتہ چند مہینوں میں ایک درجن سے زائد لیکچررز اور اسٹوڈنٹس کو فورسز نے تحویل میں لیا ہے، ان کی اغواء کو مہینوں گزر جانے کے باوجود تاحال لاپتہ ہیں۔ بی ایس او آزاد کے ترجمان نے مردان یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹ مشعل خان کی قتل کو پاکستانی معاشرے کی اجتماعی بے حسی کا مظہر قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان ایک عرصے سے ایسے اذہان تخلیق کررہی ہے جو معمولی باتوں پر دوسروں کا قتل کردیتے ہیں۔ صرف مدرسوں میں نہیں بلکہ یونیورسٹی جیسے اعلیٰ تعلیمی اداروں کے اسٹوڈنٹس بھی خود ہجوم کی صورت میں لوگوں کو قتل کرنا جائز سمجھتے ہیں۔ انہوں نے کہا پاکستانی یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے طلباء اس حد تک شدت پسند ہیں تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ بلوچستان میں تعینات فوجی ، جنہیں مشتبہ ہونے کی بنیاد پر کسی کو بھی قتل کرنے کا ریاست کی جانب سے اجازت نامہ دیا گیا ہے تو وہ کس حد تک وحشیانہ اعمال کا مظاہرہ کریں گے۔ بی ایس او آزاد کے ترجمان نے اقوام متحدہ کے ادارہ یونیسکو سے اپیل کی کہ وہ بلوچ طلباء کی اغواء کے تسلسل کو روکنے اور لاپتہ ٹیچرز اور طلباء کی بازیابی کے لئے اپنا فوری کردار کریں