شال (ہمگام نیوز) اظہار یکجہتی کرنے والوں میں دانشور موسٰی سیلاچی بلوچ آغا محبوب شاہ اور خواتین نے کیمپ آکر اظہار یکجتی کی۔ وی بی ایم پی کے وائس چیر مین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ جبری گمشدگی نہ صرف ایک جرم ہے بلکہ یہ انسانیت کے منافی عمل ہے ایسا کوئی عمل ناقابل قبول ناقابل برداشت ہے چائے وہ دہشتگردی کو کاونٹر کرنے کے لیے کی جائے یا کسی جائز مطالبے کے لیے اُٹھائی جانے والی آواز کو دبانے کے لیے دوسری جانب پاکستان دنیا کو بلیک میل کر کے سفالیت سے بلوچ نسل کشی میں مصروف عمل ہے بلوچستان میں پاکستانی خفیہ اداروں نے آئے روز بلوچ فرزندوں کی جبری گمشدگی اور دوران انہیں بدترین تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد شیر کرنے مسخ شدہ لائیں۔
ویرانوں میں پھینکنے میں مصروف ہیں 2001 سے لیکر اب تک ہزاروں بلوچ فرزندوں کو پاکستانی خفیہ ادارے بھرے بازار گھروں مسافر گاڑیوں اور تعلیمی اداروں سے میری طور لاپتہ کر چکے۔ جن میں ایک بڑی تعداد خواتین بچوں اور پیران سال بزرگوں کی بھی ہے ہزاروں کی تعداد میں جبری جبری لاپتہ افراد کی تشد د لاشیں بلوچستان کے مختلف علاقوں سے برآمد ہوئی ہیں۔
جن کا اعتراف ایمنسٹی انٹرنیشنل اقوام متحدہ کا کمیشن برائے انسانی حقوق پاکستان کی اپنی سپریم کورٹ حتی کے پاکستانی پارلیمنٹ بھی کر چکی ہے۔ اور جس کی ویڈیو فوٹیج اور دیگر شہواہد بھی دنیا کے سامنے آچکے ہیں۔
ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ پاکستانی فوج بلوچستان میں اپنے گماشتوں کے ساتھ مل کر بلوچ نسل کشی کو تیز کرتا جارغ ہے بلوچ فرزندوں کو جبری اغوا اور شہید کر کے اور گھروں کو تمہاری کا نشانہ بنا کر پاکستان بلوچ تحریک کو ختم کرنے کے لیئے اپنی دہشتگردانہ کاروائیاں تیز کر رہ ہے۔
پاکستانی خفیہ اداروں نے اپنے گماشتوں کو بلوچ تحریک کے خلاف ٹاسک دے کر بلوچستان میں سر گرم کر چکا ہے جنہیں ہر صورت میں سامنے لاکر تحریک کا کاونٹر کرنے کے لیے بطور ہتھیار زاستعمال کیا جارہ ہے۔ پاکستان نے بلوچ سیاسی رہنماوں نوجوانوں کو گرفتار کر کرئے گئی کئی سال قید زندانوں میں ڈال دیا لیکن ان رہنماوں کی سوچ فکر کو جیل زندان عقوبت خانوں نے ختم نہ کر سکا۔