لاہور: (ہمگام نیوز) بلوچ اسٹونٹس کونسل پنجاب کے ارکان نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ چونکہ بلوچستان کے حالت کسی سے ڈکھے چھپے نہیں ہیں اور جبری گمشدگی کا مسلئہ عرصہ دراز سے چلتا آرہا ہے جہاں کوئی ایسا دن نہیں گزرتا کہ کسی کو جبراً لاپتہ نہ کیا گیا ہو۔ جبری گمشدگی نہ صرف ایک غیر آئینی بلکہ ایک غیر انسانی عمل ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔
بہت سارے تحریکوں، احتجاج اور عدالتی کمیشنز کے باوجود جبری گمشدگی کے عمل میں کوئی کمی نظر نہیں آیا بلکہ وہ دن بہ دن بڑھتا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچ طالب علموں کی جبری گمشدگی کاسلسلہ پہلے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں ہوتا تھا لیکن اب یہ بلوچستان کے احاطوں سے نکل کر پنجاپ کے مخلتف شہروں اور اداروں کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے جسکی تازہ مثال سرگودھا میڈیکل کالج کے پھیتالوجی لیب سائنسز ڈپارٹمنٹ کے طالب علم خدا داد سراج ولد سراج احمد سکنہ تربت کی ہے جو کہ 8 مارچ 2024 کے رات 8:30 بجے اپنے ایک دوست کے ساتھ روٹی لینے کے لیئے گیا تھا جسے واپسی میں بہادرشاہ ظفر روڈ پر الرشید ہسپتال کے سامنے ایک نامعلوم شخص نے ایڈریس پوچھنے کے بہانے روکھے رکھا اور اسی وقت ایک وائٹ کلر کی کلٹس گاڑی میں کچھ مسلح افراد آکر اسے زبردستی اٹھا کر اپنے ساتھ لے گئے اور یاد رہے کہ وہ شخص جس نے ایڈریس پوچھنے کے بہانے انہیں روک کے رکھا تھا وہ بھی اسی گاڑی کے ساتھ چلے گئے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس سلسلے میں واقعے کے فوراً بعد ہم پولیس اسٹیشن ایف آئی آر درج کرنے گئے ایف آئی آر کو درج ہونے کے 37 گھنٹے گزرنے کے باوجود اس پر کوئی خاص عمل نہیں کیا گیا اور ہسپتال میں ٹیکنیکل ایشو کا بہانہ بناکر سی سی ٹی وی فوٹیج بھی ہمیں نہیں دکھائے گئے۔ جائے وقوع پر اور بھی کیمرے لگے ہوئے ہیں جنکی فوٹیج ابھی تک چیک نہیں کئے گئے ہیں۔ ہم خدا داد کی جبری گمشدگی اور اس تشویشناک واقعے پر پولیس ڈپارٹمنٹ کی غیر سنجیدگی کی سخت الفاظ میں مزمت کرتے ہیں۔
معزز صحافی حضرات
انہوں نے پریس کلب کے صحافیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یاد رہے کہ اس سے پہلے بھی پنجاب کے مختلف اداروں میں بلوچ طلباء کی پروفائلنگ اور ہراسمنٹ مختلف طریقوں سے کیا گیا ہے۔ پنجاب کے تعلیمی اداروں میں انہیں ہر روز ٹیچرز ، یونیورسٹی انتظامیہ، اور سیکورٹی کی طرف سے ہراسگی کا سامنا ہے۔
کونسل کے ممبران نے مزید کہا کہ بلوچستان میں کوئی خاص تعلیمی نظام اور تعلیمی اداروں کی نہ ہونے کی وجہ سے جب طلباء اپنی علم کی پیاس بجھانے کے لئے پنجاب کا رخ کرتے ہیں تو یہاں انہیں مخلتف مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن میں سب سے زیادہ خطرناک بلوچ طلبہ کی جبری گمشدگی ہے جسکی وجہ سے دیگر طلباء ذہنی اذیت کا شکار ہوکر اپنی تعلیمی سفر کو خیر آباد کرنے پر مجبور ہورہے ہیں جو کہ ریاست اور ریاستی اداروں کے لیئے باعث شرم ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جبری گمشدگیوں نے بلوچ قوم کو یہ باور کرایا ہے کہ وہ کہیں پر اور کسی بھی حالت میں محفوظ نہیں ہیں اور ہم سمجھتے ہیں یہ عمل بلوچ طلباء کی تعلیمی سفر پر قدغن لگانے کے مترادف ہے۔
انسانی حقوق کی پامالی پر عالمی انسانی حقوق کے اداروں اور سیاسی اور سماجی کارکنوں کی خاموشی ایک سوالیہ نشان ہے ہم اس پریس کانفرنس کی توسط سے ہم عالمی اداروں کی تنظیموں طلباء کونسلز اور سیاسی اور سماجی کارکنوں سے درخواست کرتے ہیں کہ خدا داد بلوچ کی با حفاظت بازیابی کے لیئے ہماری آواز بنیں۔
پریس کانفرنس کے آخر میں انہوں نے کہا کہ ہم اس پریس کانفرنس کی توسط سے ریاستی اداروں اور انتظامیہ سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ خدا داد سراج کی جلد اور باحفاظت بازیابی کو جلد از جلد یقینی بنائیں اگر آج رات تک خدا داد سراج کو منظرعام پر نہیں لایا گیا تو ہم طلباء اپنا سخت سے سخت آئینی رد عمل پیش کریں گے جو کہ احتجاج، سوشل میڈیا کیمپیئن، اور لانگ مارچ کی صورت میں ہوسکتا ہے۔