لندن (ہمگام نیوز) جنوبی کوریا اور برطانیہ نے “شمالی کوریا کی جانب سے، روس۔یوکرین جنگ میں، ماسکو کی طرف سے لڑنے کے لئے فوجی بھیجے جانے” کی مذّمت کی ہے۔
یونہاپ خبر ایجنسی کے مطابق، جنوبی کوریا کے وزیر خارجہ ‘چو تائے۔یول’ اور سیول میں موجود برطانوی وزیر خارجہ ‘ڈیوڈ لیمی’ نے شمالی کوریا کی طرف سے روس کی مدد کے لیے یوکرین میں فوج بھیجے جانے کے دعووں سے متعلق مشترکہ بیان جاری کیا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ “ہم شمالی کوریا کی جانب سے ہتھیاروں کی غیر قانونی منتقلی کے تسلسل کی اور یوکرین میں جاری غیر قانونی جنگ میں ماسکو کی حمایت کے لیے روس کو فوجیں بھیجنے کی سختی سے مذّمت کرتے ہیں۔”
بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم اس پہلو پر بغور نگاہ رکھے ہوئے ہیں کہ “فوج اور ہتھیار بھیجنے کے عوض روس کی جانب سے شمالی کوریا کو کیا دیا جا رہا ہے” ۔ ہمیں، ماسکو کی جانب سے پیونگ یانگ کو ممکنہ جوہری یا بیلسٹک میزائل ٹیکنالوجی کی منتقلی پر “گہری تشویش” ہے۔
بیان میں ہند۔بحرالکاہل اور یورپ۔اٹلانٹک خطوں کی سلامتی کو “ایک دوسرے سے مربوط” قرار دیا گیا اور کہا گیا ہے کہ جنوبی کوریا اور برطانیہ ماسکو اور پیونگ یانگ کے سامنے بند باندھنے کے معاملے میں پُر عزم ہیں اور اس کے لیے بین الاقوامی برادری کے ساتھ مل کر اقدامات کئے جائیں گے۔
واضح رہے کہ جنوبی کوریا نے 18 اکتوبر کو دعویٰ کیا تھا کہ شمالی کوریا، روس کی مدد کے لیے تقریباً 10 ہزار فوجی یوکرین بھیجنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔
نیٹو کے سیکرٹری جنرل مارک روٹے نے کہا تھا کہ وہ ابھی اس دعوے کی تصدیق نہیں کر سکتے ہیں۔
امریکی محکمہ دفاع ‘پینٹاگون’ نے بھی کہا تھا کہ وہ شمالی کوریا کی جانب سے روس کی مدد کے لیے یوکرین میں فوجی بھیجنے کےدعووں کی فی الحال تصدیق کرنے سے قاصر ہیں اور اس معاملے کی تحقیقات جاری ہیں۔
روس صدارتی محل ‘کریملن’ کے ترجمان دمتری پیسکوف نے کل شمالی کوریا ئی فوج کی روس میں موجودگی کے دعووں سے متعلق متضاد معلومات کی طرف توجہ مبذول کروائی اور کہا تھا کہ “ہم بہت زیادہ متضاد معلومات دیکھ رہے ہیں۔ ایک طرف جنوبی کوریا کوئی دعوی کر رہا ہے تو دوسری طرف پینٹاگون اس طرح کے بیانات کی تصدیق نہ کرنے کا اعلان کر رہا ہے۔ غالباً ہمیں بھی معاملے پر اسی شکل میں غور کرنا چاہیے۔”
ترجمان پیسکوف نے شمالی کوریائی فوج کے روس میں موجود ہونے یا نہ ہونے اور یوکرین میں “خصوصی فوجی آپریشن” میں شرکت کے حوالے سے سوال کے جواب میں کہا تھا کہ “یہ خصوصی فوجی آپریشن سے متعلقہ سوال ہے۔ اس کے جواب کے لئے آپ کو وزارتِ دفاع سے رابطہ کرنا چاہیے”۔