واشنگٹن(ہمگام نیوز)مانیٹرنگ نیوز ڈیسک رپورٹ کے مطابق 2015 کے ایران جوہری معاہدے کو بحال کرنے سے متعلق امریکا اور ایران دونوں کی جانب سے مایوسی کا مظاہرہ کیا گیا ہے، واشنگٹن کا کہنا ہے کہ اسے تھوڑی امید ہے جبکہ تہران نے امریکا اور یورپی مذاکرات کاروں کے عزم پر سوال اٹھایا ہے۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق امریکی خارجہ انٹونی بلنکن نے اسٹاک ہوم میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’حالیہ اقدامات اور بیانات کے بعد ہمارے پرامید ہونے کے لیے زیادہ وجوہات نہیں ہیں‘۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ چند روز میں ایران کی نیک نیتی کے بارے میں جان لیں گے۔
انٹونی بلنکن کا بیان ایران کی جانب سے ویانا میں دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کروانے والے یورپی مذاکرات کاروں کو پابندیوں کے خاتمے اور جوہری وعدوں کے مسودے فراہم کرنے کے بعد سامنے آیا۔
عالمی طاقتیں اور ایران جوہری معاہدہ بحال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ایرانی میڈیا نے وزیر خارجہ حسین امیر اللہیان کی اپنے جاپانی ہم منصب سے ٹیلی فونک گفتگو کا حوالہ دیا جس میں انہوں نے کہا کہ ’ہم سنجیدہ ارادے کے ساتھ ویانا گئے تھے لیکن ہم امریکا اور تین یورپی فریقین کے ارادوں اور نیت سے پُرامید نہیں ہیں‘۔
علاوہ ازیں انٹونی بلنکن کا کہنا تھا کہ ’ایران کو ابھی بہت دیر نہیں ہوئی ہے، وہ اب بھی بامعنی طریقے سے معاہدہ بحال کر سکتا ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ظاہر ہوتا ہے کہ مذاکرات معطل ہونے کی صورت میں دونوں فریق الزام تراشی سے بچنے کا راستہ ڈھونڈ رہے ہیں۔
یہ بیان دونوں ممالک کے معاہدے میں واپس آنے سے متعلق شروع ہونے والے مذاکرات کے چوتھے روز سامنے آیا، جس کے تحت ایران کے جوہری پروگرام کو محدود کرنے کے بدلے میں ایران سے امریکا، یورپی یونین اور اقوام متحدہ کی اقتصادی پابندیوں میں نرمی کردی جائے گی۔
یہ مذاکرات حسن رئیسی کے ایرانی صدر منتخب ہونے کے پانچ ماہ تک تعطل کا شکار ہونے کے بعد پیر کو دوبارہ شروع ہوئے تھے۔
اقوام متحدہ کے نگراں ادارے کا دو روز قبل کہنا تھا کہ ایران، پہاڑوں میں واقع فوردو پلانٹ میں جدید سینٹریفیوجز کے ذریعے یورنیم کی افزودگی بڑھا رہا ہے، مغرب کے ساتھ جوہری معاہدے کو بحال کرنے سے متعلق بات چیت کے لیے یورینیم کی افزودگی کی مقدار کو کم کرنا ہوگا۔
اسٹاک ہوم میں میڈیا سےگفتگو میں ممکنہ ترقی کا حوالہ دیتے ہوئے انٹونی بلنکن کا مزید کہنا تھا کہ ’ایران یہ نہیں کرسکتا کہ وہ جوہری پروگرام کی تعمیر کے حوالے سے اسٹیٹس کو قائم رکھے اور مذاکرات بھی کرتا رہے‘۔
یہ بات واضح نہیں ہے کہ امریکی سیکریٹری خارجہ یہ بیان دینے سے قبل ایرانی پیشکشوں کے بارے میں بریف کیا گیا تھا یا نہیں۔
ایران کے چیف جوہری مذاکرات کار علی بغیری کانی کا کہنا تھا کہ ’انہوں نے دو مسودے بھیجے ہیں، انہیں اس میں لکھی گئی تجویز کو پڑھنا چاہیے اگر وہ مذاکرات جاری رکھنا چاہتے ہیں تو ہم مذاکرات کی جاری رکھنے کے لیے ویانا میں موجود ہیں‘۔
ویانا میں موجود یورپی سفیر نے تصدیق کی مسودے کی دستاویزات حوالے کردی گئی ہیں۔
معاہدے کے تحت تہران کو اپنے یورینیم افزودگی کے پروگرام کو محدود رکھنا ہے، جوہری ہتھیاروں کے ممکنہ راستے پر چلنے والے ایران کا کہنا ہے کہ وہ صرف شہریوں کے لیے ایٹمی توانائی کو فروغ دینے کی کوشش کر رہا ہے اس کے بدلے میں اس پر اقتصادی پابندیاں ختم کی جائیں۔
یاد رہے کہ 2018 میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جوہری معاہدے سے دستبردار ہوتے ہوئے اسے ایران کے ساتھ ان کا نرم رویہ قرار دیا تھا اور ایران پر سخت پابندیاں عائد کردی گئی تھیں، جس کے نتیجے میں تہران نے بھی معاہدے کی خلاف ورزی شروع کردی تھی۔
علی بغیری کانی کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ ایک بار تمام پابندیاں ختم کردی جائیں‘۔
انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے ایران تجویز پیش کر چکا ہے کہ کس طرح پابندیوں کے خاتمے کی تصدیق کی جائے گی، تہران مذاکرات کے حوالے سے ترجیحات کو بعد ازاں یورپی یونین کے فریقین کے حوالے کرے گا۔