پورے بلوچستان کی طرح زہری بازار میں بھی آج جمیعت کی جانب سے مولوی عبدالغفور حیدری پر ہونے والے بم دھماکے کے خلاف شٹرڈاؤن ہڑتال ہوئی. زہری کے مختلف دیہاتوں سے خاص کر مدرسوں سے طالبان کو جمع کیا گیا تھا اور لیڈران نے ان سے خطاب کیا. میجر محمد رحیم اور ماسٹر خالق نے اس حملے کو دہشت گردی کا نام دیتے ہوئے اسلام اور امت پر حملہ قرار دیا.
ہمارا علاقہ زہری دور دراز ہونے اور باقی دنیا سے الگ تھلگ ہونے کی وجہ سے ایسے مداری والے تماشے بہت کم دیکھنے کو ملتے ہیں لیکن جب بھی کویی مداری اپنا ڈگڈگی لے کر میدان میں اترتا ہے تو ہمیں بھی بندر کی طرح نچا کر ہی چلا جاتا ہے. علاقائی بھرم بھی رکھنا ہوتا ہے. سیال سیال داری بھی نبھانی ہوتی ہے. سو ہم بھی چلے دھوپ میں کسی دکان کی چھت پر بیٹھے تماشا دیکھنے.
ہر مقرر نے اپنا زور لگایا چیخا چلایا. اور اپنی پگڑی کے نیچے دہشت گرد کو چھپائے دہشت گردی اور فرقہ واریت کو عالم اسلام کے لیے چیلنج کا نام دیا. خیر یہ تو ہے ہمارے معاشرے کے روداد جو کہیں بھی روز ہمیں دیکھنے کو ملتے ہیں. احتجاجی جلسہ ختم ہونے کے بعد ہم وہاں سے نکلے ہر کسی نے اپنی چادر جھاڑی اور چلتا بنے. گھر پہنچ کر خاسُن (لسی) پی اور ٹُھن ہو گئے. لیکن مجھے آج نیند نہیں آئی ہزاروں سوچوں وسوسوں میں گم پتہ بھی نہیں چلا شام کیسے ہو گئی. میں اس بات پر حیران ہوں کہ یہی میجر محمد رحیم موسیانی جس کا اپنا بیٹا افغانستان میں مارا گیا، مولوی عبدالغنی کا بیٹا افغان جہاد کی نظر ہو گیا، مولوی فیض محمد کا بیٹا بھی جہادی راستہ ناپا. ضرور مولوی حیدری کا بھی کوئی بھائی بھتیجا جہاد کا حصہ رہا ہوگا. لیکن تب وہ دہشتگردی نہیں تھی بلکہ اس کا نام جہاد ہے. جب زہری کے نوجوانوں کو برابچہ بھیج کر ٹریننگ دلواتے رہے پھر انہیں افغانستان میں معصوم افغان قوم کے خلاف پھاڑتے رہے تب وہ جہاد تھا. تبلیغ کے نام پر کہاں کہاں سے پٹھانوں اور پنجابیوں کو بلوچستان کے کونے کونے گھما کر لوگوں کو ان کے برے اعمال کا خوف دلاتے رہے( دوسروں کی مصیبتوں کو ان کے برے اعمال کا نتیجہ قرار دینے والے اپنے آپ ہونے والے حملے کیا نام دیں گے یہ کہانی پھر صحیح) تب وہ ثواب تھا. بلوچ گھروں میں مستورات کے نام پر آئی ایس آئی کے ایجنٹ اور طالبان دہشت گرد گھر گھر گھماتے رہے تب آپ کی نظر میں سب اچھا تھا لیکن آج تمھارے اپنے اعمال کا نتیجہ تمہیں ملا تو نکلے بازار بند کرنے.
یہ قدرت کا قانون ہے کہ انسان اپنے اعمال کا پھل حاصل کرتا ہے. یہی وہ پگڑی والے جہادی ہیں جنہوں نے پنجابی سے ملکر اس سے بھی زیادہ خوفناک انداز میں افغانوں پر ارش کیا ان کی تاریخ ملیا میٹ کی. مساجد تک معاف نہیں کیا گیا. ان کے تاریخی مقامات کو جہاد اور فتح کے نام پر مسمار کرتے رہے. آج گھوم پھر کر یہی چیز ان کے اپنے گھروں میں پہنچ گیا تو رونے لگے.
ہم نے اپنے تئیں ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں اپنے لوگوں خاص کر نوجوانوں کو ان کے کرتوتوں سے آگاہ کرنا چاہا اور اپنے آخری دم تک اپنے فرائض نبھاتے رہیں گے. لیکن ہمیں حیرانی ہوتی ہے خالق صاحب جیسے پڑھے لکھے تعلیم یافتہ لوگوں پر جو ان جیسے قاتلوں کا ساتھ دیتے ہیں. ہمیں حیرانی ہوتی بی ایس او کے سابقہ کیڈر جیسے انٹلیکچوئل افراد پر جو اپنی زمہداریوں سے بے پرواہ ہیں. ہم پہلے اسی سوشل میڈیا کے توسط سے اپنے خدشات کا اظہار کر چکے ہیں کہ آج بھی مشک اناری میں ان درندوں کے تربیتی کیمپ موجود ہیں. روز ہنڈا موٹر سائیکل پر بیٹھ کر بازار آتے ہیں آزادی سے گھومتے پھرتے ہیں تبلیغ کرتے ہیں نوجوانوں کو ورغلا کر افغانستان بھیجتے ہیں. اناری میں ٹریننگ سینٹر کھول رکھے ہیں.
مشک میں ہونے والے جتک طالبان تنازعہ اور اس لڑائی میں پہنچنے والے اسلحہ اور کمک سے کوئی آنکھیں چرائے تو اور بات ہے لیکن یہ کوئی مغالطہ نہیں ہے. دو ہزار بارہ رمضان المبارک کے اسی جنگ کے دوران وڈیرہ عبدالخالق موسیانی کی گاڑیوں میں محفوظ جگہوں پر رات کے اندھیرے میں منتقل ہونے والے غیر ملکیوں سے کون بیگانہ ہے.
یہ سب کچھ ہماری ناک کے نیچے ہوتا چلا آ رہا ہے اور ہم نے بارہا یہ بھی خدشہ ظاہر کیا ہے کہ آج کابل، کل کوئٹہ، دوسرے دن شاہ نورانی، تیسرے دن مستونگ اگر حملوں کی زد میں آ سکتے ہیں تو زہری بھی دور نہیں. ان تمام خدشات کو بار بار دہرانے کا مقصد یہی ہے کہ ان لوگوں کو روکیں ان کو ٹوکیں یہ اسلام کے نام پر پنجابی کی خدمت گزاری ہے یہ جہاد نہیں ہے. یہ کھلی دہشت گردی ہے جس کے اثرات سے کبھی محفوظ نہیں رہ سکتے.