تہران (ہمگام نیوز) جمعرات کے روز ایک ایرانی گلوکارہ کو ان کے حامیوں نے ہیرو کے طور پر سراہا لیکن اسلامی لباس کے ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے حجاب کے بغیر آن لائن کنسرٹ کرنے پر انہیں قانونی چارہ جوئی کا سامنا کرنا پڑا۔
پارستو احمدی نے بدھ کو اپنے یوٹیوب چینل پر موسیقی کی پرفارمنس براہِ راست نشر کی۔ انہوں نے سر پر سکارف نہیں پہنا اور ایک طویل چغہ نما سیاہ لباس میں ان کے شانے برہنہ نظر آتے ہیں۔
کنسرٹ جس میں کوئی سامعین موجود نہیں تھے، ایران کے اندر شوٹ کیا گیا جس میں احمدی کے ہمراہ ان کے چار ساتھیوں پر مشتمل بینڈ تھا جو کی بورڈ، طبلے اور گٹار پر ایک روایتی کارواں سرائے کمپلیکس کے میدان میں باہر ایک سٹیج پر موسیقی بجا رہے تھے۔
1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد نافذ کردہ قوانین کے تحت خواتین کو عوامی مقامات پر اپنا سر ڈھانپنا چاہیے اور انہیں عوام میں تنہا اور ازخود گانے کی بھی اجازت نہیں ہے۔
احمدی نے اپنے انسٹاگرام پیج پر پوسٹ کیے گئے نغمات کے سلسلے میں ایرانی عوام میں مداحوں کا ایک وسیع حلقہ بنا لیا ہے۔ ان میں آڈیو کلپس اور حجاب کے بغیر گھر کے اندر گائے ہوئے جذباتی اور رومانی نغمات کی ویڈیوز شامل ہیں جو 2022-2023 کے دوران حکام کے خلاف بڑے پیمانے پر ہونے والے احتجاج کی حمایت میں تھے۔
یہ مظاہرے 22 سالہ خاتون مہسا امینی کی زیرِ حراست موت کے بعد شروع ہوئے تھے جب انہیں تہران میں خواتین کے لیے اسلامی جمہوریہ کے سخت ضابطۂ لباس کی مبینہ خلاف ورزی کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
بدھ کی ویڈیو نشریات میں احمدی نے بظاہر پہلی بار باہر ایک مکمل محفلِ موسیقی ریکارڈ کی ہے جو گھر کے اندر فلمائے گئے زیادہ جذباتی نغمات کے برعکس ہے۔
کنسرٹ شروع ہونے سے پہلے یوٹیوب ویڈیو پر ایک تحریری پیغام میں کہا گیا ہے: “میں پارستو ہوں، وہ لڑکی جو خاموش نہیں رہ سکتی اور اپنے ملکِ عزیز کے لیے گانا چھوڑنے سے انکار کرتی ہے۔”
وہ ناظرین سے “ایک آزاد اور خوبصورت قوم کا خواب دیکھنے” کا کہتی ہیں۔
ایک گانے میں وہ بظاہر 2022-2023 میں مہلک کریک ڈاؤن کے حوالے سے گاتی ہیں: “وطن کے نوجوانوں کے خون سے گلِ لالہ پرورش پاتے ہیں۔”
سوشل میڈیا صارفین نے تقریباً آدھے گھنٹے کی ویڈیو کے اعلیٰ معیار کی تعریف کی۔
‘قوم کو ہلا کر رکھ دیا’
احمدی کا نام لیے بغیر ایرانی عدلیہ کی میزان آن لائن نیوز ویب سائٹ نے جمعرات کو کہا کہ “ایک خاتون گلوکارہ کی سربراہی میں ایک گروپ” نے “قانونی اور مذہبی معیارات پر عمل کیے بغیر فنِ موسیقی” کا مظاہرہ کیا۔
نیز کہا گیا کہ عدلیہ نے مداخلت کی اور گلوکار اور پروڈکشن کے عملے کے خلاف مقدمہ درج کرتے ہوئے مناسب قانونی کارروائی کی ہے۔
امریکہ میں مقیم مخالف رائے کے حامل مسیح علی نژاد نے کنسرٹ کو “تاریخی” اور “ظلم کے خلاف ایک ہتھیار” قرار دیا۔
امریکہ میں مقیم ممتاز مبصر کریم سجاد پور نے اس کنسرٹ کو ایک “غیر معمولی جرأت” قرار دیا جس نے “ایران کی بوسیدہ ملائیت کی بنیادوں میں ایک اور شگاف” کی نشاندہی کرتا ہے۔
فرانس میں مقیم ایرانی خواتین کے حقوق کی اجتماعی تنظیم فیمے آزادی نے کہا، “پرستو احمدی نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
ایرانی خواتین ہمارے دور کی سب سے بڑی مزاحمت کار ہیں۔”
جمعہ کو ایک نئے قانون کے نافذ ہونے کی توقع ہے جس کے بارے میں حقوق گروپوں نے خبردار کیا ہے کہ ضابطۂ لباس کی خلاف ورزی کرنے والی خواتین پر سزاؤں میں زبردست اضافہ ہو گا۔ احمدی کی محفلِ موسیقی کی نشریات اس سے پہلے ہوئی۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے منگل کو ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ خواتین کو قانون برائے “عفت و حجاب کی ثقافت کے فروغ” کے تحت جرم ثابت ہونے پر سزائے موت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
شرقِ اوسط اور شمالی افریقہ کے لیے ایمنسٹی کی ڈپٹی ڈائریکٹر ڈیانا الٹاہاوی نے کہا، “یہ شرمناک قانون خواتین اور لڑکیوں کے اپنے حقوق کے لیے کھڑے ہونے کی جرأت کو مہمیز کرتا ہے۔”