بیروت (ہمگام نیوز) جب سے ھیئہ تحریر الشام اور اس کے اتحادی مسلح دھڑوں نے شام کے دوسرے بڑے شہر حلب کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ ایرانی حکام نے بارہا اس بات پر زور دیا ہے کہ وہ شامی حکومت کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے نام نہاد “مزاحمت کے محور” کا بھی حوالہ دیا ہے جو تہران کے وفادار دھڑوں اور ملیشیاؤں کے حوالے سے شامی فوج کے ساتھ کھڑے ہونے اور اس کی حمایت کرنے کا اشارہ دیتے ہیں۔
حالیہ عرصے کے دوران ایران نے شامی افواج کی مدد کے لیے جنگجوؤں کو متحرک کرنے کی کوشش کی ہے اور حزب اللہ اور کچھ عراقی دھڑوں کے ارکان کو شام میں تعینات کیا ہے۔ ایسا سپاہیوں اور رہنماؤں نے جمعرات کو واشنگٹن پوسٹ کو بتایا ہے۔
احاکامات کا انتظار
انہوں نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ وہ لڑائی میں مشغول ہونے کے احکامات کے منتظر ہیں۔ لیکن اسرائیل کے ساتھ گزشتہ تین مہینوں سے جاری پرتشدد جنگ کے نتیجے میں حزب اللہ کے نمایاں طور پر بگڑ جانے کے بعد یہ واضح نہیں ہو رہا ہے کہ آیا یہ جماعت اس بار شامی تنازعے کا رخ تبدیل کرنے میں کامیاب ہوگی یا نہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اگرچہ عراقی ملیشیا کچھ خلا کو پر کر سکتی ہیں لیکن ان کے جنگجو حزب اللہ کی طرح تربیت یافتہ نہیں ہیں۔ ان کے ہتھیار اور گولہ بارود حزب اللہ کے پاس موجود مقدار سے کم ہیں۔ اس تناظر میں حزب اللہ کے ایک رکن نے بتایا کہ ایران ہمارے ساتھ کھڑا ہے اس لیے ہم اتحادی ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔
ذرائع نے واضح کیا ہے کہ ان کے زیادہ تر جنگجو مشرقی شام میں ہیں جہاں امریکہ کی حمایت یافتہ سیریئن ڈیموکریٹک فورسز نے افراتفری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دیر الزیر کے قریب شامی فورسز کے کنٹرول میں آنے والے دیہاتوں پر کنٹرول حاصل کرلیا ہے۔ یہ معلومات حزب اللہ کی سوچ سے واقف تین ذرائع کی جانب سے گزشتہ پیر کو یہ اطلاع دینے کے بعد سامنے آئی ہے کہ گروپ فی الحال شمالی شام میں جنگجو بھیجنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔
رائٹرز کے مطابق عراقی رہنماؤں نے مزید کہا کہ حزب اللہ کو ابھی تک ایسا کرنے کے لیے نہیں کہا گیا ہے۔ حزب اللہ اس مرحلے پر اپنے ارکان شام بھیجنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ لبنان کے مختلف علاقوں، خاص طور پر بیروت کے جنوبی مضافاتی علاقوں، جنوب اور البقاع(مشرق) پر اسرائیل کی جانب سے حملوں میں اضافے کے بعد حزب اللہ کو گزشتہ ستمبر سے بھاری نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
اسرائیل نے حزب اللہ پارٹی کے درجنوں اعلیٰ رہنماؤں کو بھی قتل کیا ہے جن میں خاص طور پر اس کے سابق سیکرٹری جنرل حسن نصراللہ اور ان کے جانشین ہاشم صفی الدین شامل ہیں۔ حزب اللہ کے کئی فوجی رہنما بھی اسرائیلی حملوں اور قتل و غارت میں مارے گئے ہیں۔ عراقی رہنماؤں نے ان خدشات کو بھی مسترد کر دیا کہ پارٹی شام میں لڑائی میں شامل ہونے کے لیے بہت کمزور ہو جائے گی۔
انہوں نے واضح کیا کہ شام کے اندر تعینات لبنانی اور عراقی جنگجو اور عناصر اس وقت “دفاعی” پوزیشن میں ہیں لیکن اگر ان کے احکامات تبدیل ہوتے ہیں تو وہ لڑنے کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے انکشاف کیا ہے کہ حزب اللہ کے جنگجو بڑے پیمانے پر لبنانی سرحد عبور کرکے حماۃ اور حمص کے شہروں کی طر
ف پھیل چکے ہیں۔