کوئٹہ ( ہمگام نیوز) مقبول احمد محمد حسنی اپنے چچا غلام سرور محمد حسنی اورپسندخان محمد حسنی کے ہمراہ گزشتہ روز کوئٹہ پریس کلب میں مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ سردار منظورمحمد حسنی نے میرے بھائی شہید خلیل احمد کو منظم منصوبہ کے تحت شہید کیا نہ صرف میرے بھائی کو بے دردی کے ساتھ شہید کیا گیابلکہ2017 کو مجھ پر اور میرے چچا پسند خان پر قاتلانہ اور جان لیوا حملہ کیا گیا جس سے میرے چچا کو بازو اور سینہ میں گولیاں لگیں اور وہ کئی مہینوں تک ہسپتال میں زیر علاج رہے۔ رمضان شریف کے مہینہ میں عورتوں اور بچوں کا لحاظ نہ کرتے ہوئے ہمارے گھروں پر برائے راست فائرنگ کی گئی اور اب میرے بھائی کو شہید کیا گیا۔ انہوں نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ہمارا تعلق سوراب کلی میرانی سے ہیں ہم محمد حسنی قبیلہ کے (سمالی)شاخ سے تعلق رکھتے ہیں، ہمارا آبائی گاؤں میرانی سوراب سے تیرہ (13) کلومیٹر کے فاصلہ پر مشرق کی جانب واقع ایک چھوٹا سا گاؤں ہے، جس میں ہم کل دس گھرانے رہتے ہیں اس سے قبل یہ وادی خوشحال اور امن کا گہوارہ تھا اور ہم سکون و چین سے زندگی گزارتے تھے لیکن بد قسمتی سے اب اپنے علاقہ میں ہمارے اپنے قبیلہ کے لئے ایک فرد جس کا نام منظوراحمدہے جب سے اسے سردار ی کی پگڑی پہنادی گئی اور ہم پر بطور سردار مسلط کیا گیااس کے بعد سے تادم حال اس علاقہ میں ہم اور ہمارے خاندان اور ہم سے ملحقہ گاؤں والے نہ صرف زہنی ازیت سے دوچار ہے بلکہ کوئی بھی آزادی سے اپنے معمول کی زندگی نہیں گزار سکتا۔ انہوں نے کہاکہ سردار منظور کی جانب سے ہمیں مسلسل زہنی ازیت سے دوچار کیا جارہا ہے یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے، ایک تسلسل کے بعد دوسرا تسلسل شروع ہوجا تا ہے 2017 کو مجھے اور میرے چچا پسند خان کو جب ہم سوراب سے اپنے گھر کلی میرانی آرہے تھے کہ راستے میں ہمارے گاؤں کے نزدیک ان کی جانب سے ناکہ لگا کر ان کے مسلح محافظوں نے ہمارا راستہ روک کر ہم پر فائرنگ کھول دی میرے چچا پسند خان جسے بازو اور پاؤں میں گولیاں لگی اور ہمارے موٹر سائیکل جل کر خاکستر ہوگئی جو ابھی تک سوراب پولیس تھانے میں پڑاہواہے جب کے بعد میں قبائلی رسم رواج کے تحت ہمارے درمیان صلح کیا گیا اور منظور احمد کو نہ صرف ملامت کی گٸی بلکہ قبائلی روایت کے تحت ان پر جرمانہ عائد کی گئی لیکن بعد میں منظور احمد کی جانب سے اس فیصلہ کی پاسداری نہیں کی گئی اور وہ اپنے وہی ہتکھنڈے دوبارہ استعمال کرتے رہے اور ہمیں مختلف طریقوں سے ازیت دیتے رہے حتٰی کہ ہمیں اپنے کھیتوں میں کام کرنے سے نہ صرف روکا گیابلکہ ہمارے ساتھ کام کرنے والے دیگر محنت کش مزدوروں کو بھی کام نہ کرنے کے حوالہ سے مسلسل تھریٹ، دھمکی دیتے رہے جس کی وجہ سے ہمیں کافی مالی نقصان اٹھانا پڑا۔ جب کہ 2017 میں اسی سال اس واقعہ کے دوران ہم پر کسی اور شخص کے قتل کا ناجائز مقدمہ درج کروایاگیا حالانکہ وہ دو قبائل کے درمیان پرانی دشمنی کا شاخسانہ تھا جس سے ہمارا کوئی تعلق نہیں تھا اور وہ دو قبائل کے فریقین کی جانب سے وضاحت کی گئی تھی کہ اس کیس یا قتل کے اس واقعہ سے ہمارا دور، دور سے بھی کوئی تعلق نہیں تھا جن کا بندہ قتل ہوا تھا ان کی جانب سے کورٹ میں بھی بیان قلم بند کروایا گیا تھا کہ اس میں ہم ملوث نہیں ہیں۔
انہوں نے کہاکہ حالیہ رمضان المبارک کے مہینہ میں تراویح کے نماز کے بعد منظور احمد اور ان کی بھائیوں کے جانب سے جعلی فائرنگ کا ڈرامہ رچاکر
مبینہ طورپر خود کو معمولی زخمی کرکے الزام ہم پر لگایا گیا کہ ہماری
جانب سے ان پر حملہ ہوا ہے حالانکہ یہ
بلکل من گھڑت اور بے بنیاد تھا اسی کو جواز بناکر ہمارے گھروں پہ فائرنگ
کی گئی جوکہ قبائلی اور علاقائی روایات کے منافی ہے بعد میں مجھ پہ
میرے بھائی چچا اور چچا زاد بھائی پر جھوٹے مقدمات قائم کی گٸی جب کہ
اس کے بعد 7جون کو ہمارے قبائل کے (30) تیس سے زائد معتبرین نے قبائلی جرگہ کا انعقاد کرکے ہمارے گاؤں آئے ہم نے انہیں مکمل ختیارات دیئے کہ وہ ہمیں شیر و شکر کرنے اور ہمارے درمیان صلح کرنے کے لئے جو بھی فیصلہ کریں گے، ہمیں قابل قبول ہوگا لیکن منظور احمد نے عین وقت پہ راہ فرار اختیار کرتے ہوئے جرگہ میں بیٹھنے اور کسی قسم کی فیصلہ یا بات چیت سے مکمل انکار کیا جس سے مایوس ہوکر جرگہ کے معززین واپس چلے گئے اور جرگہ کے دوسرے دن یعنی8جون کو منظور اور اس کے بھائیوں منیر، یاسر اور شبیر نے میر ے بھائی خلیل احمد محمد حسنی کواسی گاؤں میں گھر کے پاس پورے گاؤں کے بچوں اور
عورتوں کے بیچ میں دن دیہاڑے اندھا دھند فائرنگ کرکے انتہائی بے دردی اور
بے رحمی کے ساتھ شہید کیا، اور ان کے ساتھ ہمارے مہمان ضعیف العمر خان
محمد کو بھی گولیاں لگی اور وہ زخمی ہوگئے جو خضدار ہسپتال میں زندگی اور موت کی کشمکش سے دوچار ہے۔
انہوں نے مزید کہاکہ منظوراور اس کے بھائیوں کی جانب سے ہمارے اوپر مسلسل ظلم ہورہاہے اور ہم نے ہمیشہ برداشت صبر اور تحمل سے کام لیا ہے اس تیس سالہ کشمکش میں ہم نے ہمیشہ صبر سے کام لیا ہے لیکن رونما ہونے والے اس واقعہ کے بعد ہمارے برداشت جواب دے چکی ہے لیکن ہم اب بھی قانون کو ہاتھ میں نہیں لینا چاہتے بلکہ ہم قانون اور انصاف کے ہر دروازے کو کھٹکھٹائیں گے کہ ہمیں انصاف دلائی جائی ہمارے خاندان کو اب بھی ہراساں کیا جارہاہے اور اب بھی ہمیں دھمکی دی جارہی ہے قاتلوں کی نشاندہی کے باوجود پولیس کی جانب سے ان کی عدم گرفتاری باعث تشویش ہے، میرے بھائی کے قاتل آزادانہ گھوم رہے ہیں ہم پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیا وہ اتنے بااثر ہے کہ وہ جو کچھ بھی کرے انھیں کھلے عام چھوٹ حاصل ہے اور ہماری مدعا سنی ان سنی کردیا جائے۔
ہم پوچھنا چاہتے ہیں کہ انہیں یہ رعایت کیوں دیا جارہاہے؟ ہم نے ان کے
خلاف درخواست دی ہے ان کے خلاف باقاعدہ ایف آئی آر درج کروائی ہے لیکن انھیں گرفتار کرنے میں کیا مشکلات ہے؟ ہم پھر سے سوراب انتظامیہ سے اس پریس کانفرنس کی
توسط سے درخواست کرتے ہیں کہ انہیں فی الفور گرفتار کیا جائے اور سیکورٹی اینجسیز سے اپیل کرتے ہیں کہ ان کی گرفتاری میں معاونت کریں ہم نے سوراب پولیس کو اپنے گاؤں اور اس سے ملحقہ ایریاز میں پولیس چیک پوسٹ اور پیٹرولنگ کی در خواست دی ہے لیکن اتنے بڑے واقعہ کے رونما ہونے کے باوجود بھی ہمارے درخواست پر عمل در آمد نہ ہونا ایک بڑی سوالیہ نشان ہے ۔