شنبه, نوومبر 23, 2024
Homeخبریںخاران میں ایف سی اور انٹیلیجنس اداروں کا جوڈیشل مجسٹریٹ کے گھر...

خاران میں ایف سی اور انٹیلیجنس اداروں کا جوڈیشل مجسٹریٹ کے گھر پر چھاپہ

خاران (ہمگام نیوز) ذرائع کے مطابق خاران شہر میں واقع آئی ایس آئی دفتر اور پولیس سربراہ عزیز جھکرانی کے رہائشگاہ پر ہونے والے حملے کے بعد قبضہ گیر ریاستی افواج نے حواس باختہ ہو کر ایک جانب تو اپنے سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا اور دوسری طرف سرکاری آفیسرآں کے گھروں پر ایف سی کے جانب سے چھاپے بھی مارے گئے۔

تفصیلات کی رو سے گذشتہ روز یعنی کہ 10 مئی کو 3 بجے کے قریب خاران شہر میں شیخ مسجد کے قریب واقع سیکریٹریٹ روڈ پر واقع پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے دفتر اور ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر عزیز جکھرانی کی رہائش گاہ پر بیک وقت تین بم حملے ہوئے،بعد ازاں جسکی ذمہ داری بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کرتے ہوئے صاف الفاظ میں وضاحت کی کہ پولیس آفیسر عزیز جکھرانی کو خاران لانے کا بنیادی مقصد محض لوکل پولیس اہلکاروں کو آزادی پسند سرمچاروں سے دست و گریباں کروانا ہے۔ بم حملوں کے فوراً بعد ہی آس پاس کے تمام علاقے فائرنگ کی آواز سے گونج اٹھے۔

معلومات کے مطابق حملے کے فوراً بعد ہی بوکھلاہٹ میں شکست خوردہ پاکستانی فوج ایف سی اور آئی ایس آئی کے کارندوں کی جانب سے آس پاس کے مختلف سرکاری کوارٹرز پر شدید فائرنگ کی گئی۔خاران پولیس کے اندرونی ذرائع کے مطابق واقعہ کے رونما ہونے کے چند لمحوں بعد جوڈیشنل مجسٹریٹ عبدالرحمن لانگو کی جانب سے پولیس سٹیشن خاران کو اطلاع ملی کہ میرے گھر پر ایف سی کی جانب سے شدید فائرنگ کی جاچکی ہے اور اب ایف سی کرنل اپنے کارندوں کے ہمراہ زبردستی رہائش گاہ میں چھاپے کی غرض سے گُھسنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

پولیس ذرائع کے مطابق اطلاع ملنے کے بعد فوری طور پر ہمارے ایس ایچ او اپنے دستے سمیت جاہ وقوعہ کی طرف نکل پڑے۔

یاد رہے اِس کے علاوہ بھی نزدیک موجود دیگر سرکاری املاک پر ایف سی کو برائے راست گولیاں برساتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔

پولیس ذرائع کے مطابق مجسٹریٹ کے گھر پہنچتے ہی ایس ایچ او اور ایف سی کے کارندوں کے درمیان طویل بحث و تکرار کے بعد ایف سی کو غیر قانونی طور مجسٹریٹ کے گھر پر چھاپے سے روکنے میں کامیاب ہوگئے۔

متعدد لوکل پولیس لیویز اور علاقائی رابطوں سے جب ایف سی کی جانب سے سرکاری عمارات اور آفیسرآں کو نشانہ بنانے کے محرکات کا پوچھا گیا تو ایک خیال سامنے آیا جو کہ کَل کے حملے کے بعد سے عام عوام میں گَردش کر رہی ہے یہ کہ پچھلے چند سالوں سے خاران میں پاکستانی افواج کا دیگر سرکاری اداروں اور بالخصوص لوکل سکیورٹی فورسز (پولیس /لیویز)کے خلاف انتہائی عجیب و غریب رویہ اپنایا جا رہا ہے،جسمیں پولیس و لیویز فورسز میں بھرتی شدہ نوجوان اہلکاروں کو بلوچ سرمچاروں کے خلاف کام کروانے پر اُکسانا، ملازمین کو زبردستی تنگ کرنا، انکے گھروں میں غیر قانونی طور پر چھاپے مار کر چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کرنا اور لوکل سیکیورٹی کارندوں کو اغواء کرنا شامل ہیں۔ یاد رہے کہ پچھلے چند سالوں میں انٹیلجنس دفاتر پر بلوچ لبریشن آرمی کی جانب سے درجنوں حملے کئے جا چکے ہیں، اب چونکہ انٹیلجنس ادارے حملہ آور سرمچاروں تک پہنچنے میں بُری طرح ناکام ہو چکے ہیں تو آس پاس جتنے بھے سرکاری دفاتر اور رہائش گاہ موجود ہیں اُن میں موجود ملازمین و آفیسراں کو تنگ کرنے اور قریبی عمارتوں کو خالی کرنے اور ان پر قبضہ جمانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اور اِسی تناظر میں کل کے واقع کے بعد مجسٹریٹ و دیگر آفیسرآں کے رہائش گاہ و دفاتر پر ریاستی افواج کی جانب سے فائرنگ و چھاپوں جیسے غیر قانونی اور غیر معمولی واقعات عمل میں لائے گئے۔

خاران جہاں ایک جانب ریاستی ادارے بشمول عزیز جھکرانی جیسے آفیسرز بلوچ سرمچاروں سے اپنے حفاظت کے لئے سرگرداں ہیں وہی دوسری جانب معتبر ملازمین و آفیسرآں و عوام ریاستی افواج و انٹیلیجنس اداروں سے بیزار اپنے جان و مال کے حفاظت کے لئے نالاں ہیں۔ اب چونکہ ایم آئی، آئی ایس آئی دفتر، اور ایف سی کیمپ کے اردگرد زیادہ تر سرکاری دفاتر و کالجز موجود ہیں تو آہستہ آہستہ کرتے کرتے جتنا ہو سکے ان پر اپنا قبضہ جمانے کی تگ و دَو جاری ہے، گرلز کالج کے سامنے روڈ بلاک کرنا ہو یا پھر ڈی آئی جی دفتر کے سامنے آئے دن نت نئے طریقوں سے مین شاہراہ پر سیکیورٹی کے نام سے رکاوٹیں قائم کرکے متاثر کرنا ہو، عام عوام کی ہراسانی ہو ،ملازمین کی اغواء کاریوں سے لیکر آفیسرآں کو تنگ کرنا سب عین اسی مقصد کی تکمیل کی جانب اشارہ کرتی ہیں۔ اور اندازہ یہی لگایا جارہا ہے کہ مستقبل قریب میں ایسے غیر قانونی معاملات میں مزید اضافہ دیکھا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز