تہران ( ہمگام نیوز ) ایران کی مجلس شوریٰ [پارلیمنٹ] کے ایک رکن نے اعتراف کیا ہے کہ جیلوں میں قید خواتین کو کیمروں کے سامنے برہنہ ہونے پرمجبور کیا جاتا ہے۔
ایرانی رکن پارلیمنٹ کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب حال ہی میں ایران کی حقوق نسواں کی ایک سرکردہ شخصیت مژگان کشاوز نے عورتوں کے خلاف ایرانی حکام کی بدسلوکی کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔ اس کے بعد پارلیمنٹ میں قانونی اور عدالتی کمیٹی کے سربراہ موسیٰ غضنفر آبادی نے اعتراف کیا کہ خواتین کو حراستی مراکز اور جیلوں میں کپڑے اتارنے مجبور کیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ خواتین کے ساتھ یہ سلوک انہیں تلاشی دینے کے لیے کیا جاتا ہے تاہم انہوں نے خواتین قیدیوں کے حوالے سےاس دعوے کے ساتھ کہا کہ ایسا منشیات کی روک تھام کے پہلوسے کیا جاتا ہے۔
غضنفر آبادی نے واضح طور پر ایران میں جیل انتظامیہ کو ریگولیٹ کرنے والے ضابطے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ “قانون جیلوں میں منشیات کے داخلے کو روکنے کے لیے ملزموں اور مشتبہ افراد کی جسمانی تلاشی کی اجازت دیتا ہے۔
پارلیمنٹ میں گفتگو کرتے ہوئے غضنفر آبادی نے کہا کہ زیر حراست مرد و خواتین کارکنوں کی برہنہ تلاشی لی جاتی ہے مگر اس کی وجہ جیلوں میں منشیات کی روک تھام کو یقینی بنانا ہے۔ اگر کسی پر جیل میں کوئی مشکوک چیز لانے کا شبہ ہوتا تو اس کی جامہ تلاشی لی جائے گی۔
کمیٹی کے سربراہ نے کہا کہ انہوں نے ایران واچ کو بتایا کہ “اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ملزم کون ہے۔ اگر محافظوں کو کسی پر شبہ ہے کہ وہ جیل میں کوئی خاص چیز لانے کی کوشش کر رہے ہیں، تو وہ ضرور تلاشی لیں گے”۔
خواتین کے حقوق کی کارکن مژگان کاشاوز کی جانب سے ایرانی جیلوں کے بارے میں اپنا تجربہ شائع کرنے کے بعد جیلوں اور حراستی مراکز میں خواتین کی برہنگی کا معاملہ گذشتہ ہفتوں کے دوران کارکنوں اور میڈیا کی توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔
کشاوز نے انسٹاگرام پر ’می ٹو ایران‘ نامی صارف کے اکاؤنٹ پر اپنی پوسٹ شیئر کی تھی جس میں اس بات کی نشاندہی کی گئی تھی کہ جیل کے افسران نے اسے مکمل طور پر کپڑے اتارنے پر مجبور کیا اور پھر اس کے برہنہ جسم کی تصاویر بھی کھینچیں۔اس نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پرجیلوں میں پوچھ گچھ کےدوران ہراساںی اور حملہ کرنے کے واقعات کا انکشاف کیا۔
ایران میں سیاسی اور سول کارکنان کا خیال ہے کہ جنسی زیادتی اور ہراساں کرنے کی پالیسی ایک منظم اقدام ہے جس کا مقصد خواتین کے خود اعتمادی کو کمزور کرنا اور ان کی تذلیل کرنا ہے۔ انہوں نے زوردے کر کہا کہ یرانی انقلاب کے ابتدائی سالوں کے بعد آج تک خواتین کو مختلف شکلوں میں ہراساں کیا جاتا رہا ہے۔
غضنفرآبادی کے دعوے کے جواب میں ایرانی وکیل شیما قوشا نے کہا کہ “جیل آرگنائزیشن کے ضوابط میں عمومی طور پر یہ شرط رکھی گئی ہے کہ جیل میں داخل ہونے سے پہلے کسی شخص کی تلاشی لی جانی چاہیے تاکہ وہ اپنے ساتھ باہر سے کوئی چیز نہ لائے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ کیس صرف منشیات سے متعلق ہے “۔
دوران حراست برہنہ کرکے تصاویر لینے سے متعلق سابق خواتین سیاسی قیدیوں کے انکشافات کے بعد کہ خبر رساں ایجنسی “میزان” نے ایک بیان میں اس دعوے کی تردید کی ہے۔ نیوز ایجنسی کے مطابق حکام کا کہنا ہے کہ میڈٰیا میں اس حوالے سے جو کچھ رپورٹ ہوا ہے وہ بے بنیاد ہے۔ یہ معائنہ “جدید ترین آلات اور جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے اور خاص اور مخصوص صورتوں میں کیا جاتا ہے۔ اگر ضروری ہو تو مکمل جسم کی تلاش کی جاتی ہے اور لوگوں کی راز داری کا تحفظ کیا جاتا ہے۔