کابل( ہمگام نیوز ) باخبر ذرائع نے جمعے کے روز بلومبرگ کو بتایا کہ افغانستان میں طالبان تحریک کی طرف سے خواتین کے حقوق کو محدود کرنے کے لیے جاری کیے گئے حالیہ فیصلوں نے تحریک کے اندر اختلافات مزید بڑھا دیے ہیں، یہ اختلافات اس حد تک پھیل چکے ہیں کہ متحارب دھڑے اپنے آپ کو وفادار افواج کے ذریعے محاذ آرائی سے تحفظ دینے کی کوشش کررہے ہیں۔
ذرائع نے مزید کہا کہ حالیہ فیصلے تحریک کے رہ نما ہیبت اللہ اخوند زادہ کی طرف سے جاری کیے گئے ہیں، جو خود عوام میں شاذ و نادر ہی نظر آتے ہیں۔ وہ جنوبی شہر قندھار سے ملک پر حکومت کرتے ہیں اور اپنے فیصلے “طالبان” کے اندر مذہبی کونسل کے ذریعے جاری کرتے ہیں۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ طالبان رہ نماؤں کا ایک گروپ جس میں “وزیر دفاع ملا محمد یعقوب جو تحریک کے بانی مرحوم ملا محمد عمر کے بیٹے ہیں اور وزیر داخلہ سراج الدین حقانی، (حقانی نیٹ ورک) کے رہ نما، شامل ہیں۔ حقانی ایف بی آئی کو دہشت گردی کے الزام میں مطلوب افراد کی فہرست میں شامل ہیں وہ اخوند زادہ کے فیصلوں کی مخالفت کر رہے ہیں جب کہ اس معاملے پر بات کرنے کے لیے اخوند زادہ سے ملاقات کی کوششوں کو اب تک مسترد کر دیا گیا ہے۔”
ذرائع نے مزید کہا کہ “تناؤ اب اس قدر شدید نظر آتا ہے کہ دونوں دھڑے اپنے وفادار افراد کو اکٹھا کر رہے ہیں تاکہ مشکل وقت میں ان کا استعمال کیا جا سکے۔ ملا محمد یعقوب اور حقانی دارالحکومت کابل میں ایک قلعے پر قابض ہیں۔ اخوندزادہ گروپ کی نمائندگی قندھار میں کی جاتی ہے، جس میں نوے کی دہائی کے اوائل میں طالبان کا آغاز ہوا تھا۔”
بلومبرگ ایجنسی نے بتایاکہ حکومت میں ان کے عہدوں کی وجہ سے نوجوان طالبان رہ نماؤں یعقوب اور حقانی کے پاس امریکی فوج کے چھوڑے گئے اربوں ڈالر کے فوجی سازوسامان تک رسائی ہے، جب کہ ذرائع سے پتہ چلتا ہے کہ اخوندزادہ کے زیادہ تر وفادار مقامی مسلح عناصر ہیں جن میں قندھار میں ملیشیا ، مذہبی رہ نما اور ہم خیال لوگ ہیں۔
طالبان حکومت کی اختلافات کی تردید
درایں اثنا افغان حکومت کے ترجمان بلال کریمی نے خواتین سے متعلق فیصلوں کے حوالے سے تحریک کے رہ نماؤں کے درمیان کسی قسم کی تقسیم یا اختلافات کے وجود سے انکار کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ “یعقوب اور حقانی کی طرف سے اخوندزادہ سے ملاقات کی کسی بھی کوشش سے آگاہ نہیں “۔ انہوں نے “بلومبرگ” کو ایک بیان میں مزید کہا کہ اسلامی امارت میں ہر کوئی سپریم لیڈر کے احکامات کا احترام اور تعمیل کرتا ہے۔
تاہم ملایعقوب اور ملاحقانی نے خواتین کے حقوق کے حوالے سے مختلف آراء کا اظہار کیا ہے۔ افغان وزارت داخلہ کے ترجمان عبدالنافع تاکور نے کہا کہ حقانی خواتین کی تعلیم اور ملازمت کے مسئلے کا حل چاہتے ہیں اور ایک اسلامی ماحول کی تشکیل چاہتے ہیں جس میں لڑکیاں اسکو جا سکیں اور ملازمت بھی کرسکیں ۔”
جہاں تک افغان وزارت دفاع کے ترجمان عنایت اللہ خوارزمی کا تعلق ہے تو انہوں نے خواتین پر حالیہ پابندیوں کے بارے میں ملا یعقوب کے خیالات پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔گذشتہ اگست میں ایک انٹرویو میں انہوں کہا تھا کہ وزیر ملا یعقوب سنجیدگی سے خواتین کی واپسی کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔”
تاہم مقررین میں سے کسی نے بھی دونوں وزراء اور اخوندزادہ کے درمیان تنازعہ کی موجودگی کے حوالے سے رپورٹ میں موجود معلومات پر تبصرہ نہیں کیا۔
ایجنسی نے انٹرنیشنل کرائسز گروپ کے ایشیا پروگرام کے ایک سینئر مشیر گریم اسمتھ کے حوالے سے بتایا کہ طالبان کے بہت سے اہلکار اپنے خاندان کے افراد بشمول لڑکیوں کو پاکستان، قطر یا امارات جیسے ممالک میں تعلیم دے رہے ہیں۔
چند روز قبل طالبان کی حکومت نے تمام مقامی اور غیر ملکی غیر سرکاری تنظیموں کو حکم دیا تھا کہ وہ خواتین کو کام پر آنے کی اجازت نہ دیں۔ طالبان کے اس فیصلے پر عالمی برادری کی طرف سے سخت رد عمل سامنے آیا تھا اور اس کی شدید مذمت کی جا رہی ہے۔