*(بلوچ درد کے ساتھ اسلام آباد آئے عزم کیساتھ بلوچستان لوٹے ہیں جو بڑے طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے )*

تحریر : حفیظ حسن آبادی

بلوچ یکجہتی کمیٹی پر ریاست نے جس شدت سے دباؤ بڑھایا وہ اسی شدت سے اُبھر کر نکھرا کیونکہ ریاست نے اُن کے ساتھ وہ رویہ اختیار کیا جو جلتی پر تیل کرتی ہے انھیں توجہ سے سُننے اور ان کے مطالبات حل کرنے کی راہیں تلاش کرنے کے بجائے بے اعتنائی، غرور و لاتعلقی کا روش اپنایا گیا اور جو کچھ ریاستی طاقتور اداروں نے بدست خود بگاڑا ہے اُس میں اپنی غلطیوں کو قبول کرنے کی جرات پیدا نہیں کر سکے لہذا جو گانٹھ ہاتھ سے کھل سکتا تھا اب دانتوں سے کھلنے کا نام نہیں لیتا اور یہ مسئلہ جس دوراندیشی، تحمل اور بصیرت کا تقاضہ کرتی ہے اس کا تو دور دور تک گماں بھی نہیں گزر رہا.

تربت سے نکل کر پندرہ سو کلومیٹر سے زائد کا سفر طے کرنے کے بعد درد کے مارے تھکے ہارے بلوچ خواتین، بزرگ و بچے ان پانچ اُمیدوں کیساتھ اسلام آباد آئے کہ

ا) شاید یہاں کے صاحب اختیار انھیں سُنیں کہ وہ کونسا دکھ ہے جو انھیں انگاروں پر چلتے یہاں تک لے آئی ہے. شاید کسی گمشدہ کے رہائی کی نوید ملے، شاید بے شمار بے انصافیوں اور بربریت پر ندامت کا احساس جاگے. سی ٹی ڈی اور ڈیتھ اسکواڈز کا خاتمہ ہو.

ب) ملک کے طول و عرض میں بلوچ المیہ بارے آگاہی پھیلائی جائے جو یہاں کے بڑے لوگ گاہے بہ گاہے بلوچ قوم بارے ناراض بلوچ کا لاحقہ لگاتے ہیں انھیں یہ بتایا جائے کہ بلوچ کیوں ناراض اور اب کیوں بیزار ہے

پ)  پاکستان کی سول سوسائٹی، سیاستدان، وکلاء دانشور، صحافی وغیرہ جو ہمیشہ بلوچوں کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ آپ جمہوری انداز میں بات کریں پورا پاکستان آپ کے ساتھ ہوگا. انھیں یہ باور کرایا جائے کہ سچ یہ ہے کہ فیصلہ کن مرحلے میں چند لوگوں کے علاوہ باقی سب استحصالی قوت کا ہی ساتھ دیں گے جو ہمارے ساحل و وسائل پر قابض ہو کر ہمیں لاشوں کے انبار دے رہا ہے.

ت)  کچھ لوگ اب بھی کہتے ہیں کہ پاکستان میں اظہار رائے کی آزادی ہے اور عدالتیں انصاف فراہم کرتی ہیں یہاں آکر اُن کی یہ غلط فہمی دور کی جائے.

ٹ)  دنیا کو پتہ چلے کہ پاکستان بلوچ قوم سمیت مظلوم قوموں کے ساتھ کیسا کالونیل رویہ روا رکھے ہوئے ہے.

ان پانچ مقاصد سے صرف پہلا مقصد حاصل نہیں ہوا جو کسی نے انھیں نہیں سُنا اور ان کے پیاروں کی بازیابی کا کوئی صورت نکل نہیں آیا نہ کسی طرف سے اپنے مظالم پر شرمندگی کا اظہار ملا اور نہ ہی وہ سی ٹی ڈی سمیت کسی بھی مسلح و غیر مسلح ادارے کو جوابدہ کرانے کامیاب ہوئے مگر اُن کے باقی چاروں مقاصد پورے ہوئے. تربت سے شروع ہونے والے اس دو مہینے کے دھرنے اور بعد میں اسلام آباد تک لانگ مارچ نے تمام تر ریاستی پابندیوں اور میڈیا بلیک آؤٹ کے باوجود سوشل میڈیا کی بدولت بلوچ اور دیگر مظلوم اقوام کیساتھ روا رکھا گیا ریاستی جابرانہ سلوک بے نقاب کیا اور اس تلخ حقیقت کو ایک بار پھر سب پر آشکار کیا کہ بلوچوں اور دیگر مظلوموں کو سُننے والا کوئی نہیں اور جو لوگ یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ بلوچ کیوں ریاست سے ناراض ہیں تو پنجاب اور اسلام آباد پولیس نے اپنے متشددانہ رویے سے یہ بات انھیں ایسے “سمجھائی” کہ وہ اسے صدیوں تک بھول نہ پائیں .

بلوچ گمشدگاں کے لواحقین بتیس دن تک اسلام آباد نیشنل پریس کلب کے سامنے دھرنے پر بیٹھے رہے ریاست کے ارباب اختیار نے انھیں اس عرصے میں بتیس سیکنڈ سُننا تو درکار بتیس سیکنڈ آرام سے بیٹھنے نہیں دیا. لاٹھی چارج و آنسو گیس سے لیکر حبس بے جا میں رکھنے تک، گلوگیری کی خاطر صوتی آلات کے چوری سے لیکر کمبل و پانی مہیا کرنے میں دشواری پیدا کرنے تک، آنے جانے والوں کو روکنے خاردار تاریں بچھانے سے لیکر ہر اذیت پہچانے تک کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی مگر مجال ہے پنجاب کی سول سوسائٹی، وکلاء، سیاستدان، دانشور ،صحافی حضرات کو کہ لب کُشائی کریں، بدسلوکی کی مذمت کریں. اور مین اسٹریم میڈیا جو چھوٹے چھوٹے غیر اہم موضوعات پر اکثر گھنٹوں ضائع کرتا ہے لیکن بلوچ نسل کُشی کی فریاد کرنے والوں کو بلیک آوٹ میں رکھا .

چند ایک مہربان محمد حنیف، حامد میر، اسد طور، ایمان مزاری، آمنہ جنجوا اور عاصمہ شیرازی جیسے انسان دوست صحافی، وکیل یا چند عام لوگوں کے باقی سب نے چھپ کا روزہ رکھا نہ انکی آنکھیں بلوچ ماؤں بہنوں بزرگوں کو گھسیٹے دیکھ سکیں نہ اُنکی فریاد، آہیں اور سسکیاں سُن سکیں.

اُن کی اس لاتعلقی نے بلوچوں میں موجود اس سوچ کو تقویت بخشی کہ باہر سے انسان دوست، روشن خیال دانشور، قانون کی بالادستی کی باتیں کرنے والے سب کے سب اندر سے تنگ نظر و متعصب پنجابی ہیں جو پاکستان کی سالمیت کو بچانے کی آڑ میں ریاست کی ہر غیر قانونی عمل کی حمایت کرتے ہیں جو مظلوموں کو کچل کر اُن پر حکمرانی کرتے ہیں . شہریوں کے حقوق کا تحفظ کرنے والا ملکی آئین اور عدالتیں مظلوموں کیلئے بالکل بھی نہیں اور ساتھ میں اس تاثر کی بھی اُس وقت تصدیق ہوئی جب اسلام آباد ہائی کورٹ نے پولیس کو ہدایات جاری کیں کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے شرکاء کے اظہارِ رائے میں کوئی امر مانع نہ ہو اور انھیں تنگ و ہراساں کرنے سے گریز کیا جائے مگر سب نے دیکھا کہ اسلام آباد پولیس نے کورٹ کے احکامات کو بوٹ کی نوک پر رکھ کر دھرنے پر بیٹھے مظلوموں کیلئے عرصہ حیات تنگ کئے رکھا انھیں دن رات مسلسل ہراساں کیا. اسلام آباد تو اسلام آباد بلوچستان و کراچی سمیت ملک کے مختلف علاقوں میں دھرنے کے شرکاء کے عزیز و اقارب تک کو دھمکیاں دی گئیں، ایف آئی آر کاٹی گئیں اُن کی پروفائلنگ کی گئی. ان اذیتوں کے بارے میں بار بار سے کورٹ کو آگاہ کیا گیا مگر اسلام آباد ہائی کورٹ اور چند سو قدم کے فاصلے پر سپریم کورٹ نے پولیس اور دیگر فورسز کی جانب سے کسی بھی غیر قانونی عمل کا نوٹس لیا اور نہ ہی کورٹ فیصلے کی دانستہ و دیدہ دلیرانہ نافرمانی پر برہم ہو کر عدالتی حکم کی تعمیل کو یقینی بنایا اور نہ ہی کسی بھی طرح بلوچ ماؤں بہنوں کی دادرسی کی جس سے بار بار چی گویرا کا یہ قول زہن میں بجلی کی طرح کوندتا رہا کہ “آئین فقط آزاد اور خودمختار قوموں کیلئے ہوتا ہے. غلاموں کیلئے بندوق، فوج اور مذہب ہوتے ہیں”.

جہاں تک بلوچ مسلے کا بین الاقوامی سطح پر اجاگر ہونے کا سوال ہے وہ بھی کسی حد تک اُجاگر ہوا مگر بین الاقوامی حالات میں مشرق وسطیٰ سے لیکر یورپ تک طلاطمی کیفیت اور بیرون ملک مقیم بلوچوں میں ہم آہنگی کے فقدان اور وہاں سرگرم قیادت میں ایک دوسرے سے عدم تعاون کی وجہ سے وہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا جسکی اُمید کی جاسکتی تھی.

حرف آخر : مجموعی طور پر بلوچ یکجہتی کمیٹی نے قوم سمیت یہاں زیرعتاب تمام مظلوم اقوام کی شاندار، مدلل نمائندگی و وکالت کی اور بجا طور پر اسے تمام مظلوموں نے اپنے اُمیدوں کے محور کے طور پر دیکھنا شروع کیا ہے جس سے اس بات کے امکاناتاں پیدا ہو گئے ہیں کہ انسانی حقوق کے لئے جد و جہد کرنے والی تمام قوتیں بی وائی سی اور پی ٹی ایم کے گرد جمع ہونا شروع ہو چکے ہیں اور بعد میں ان دونوں کو کسی مشترک پلیٹ فارم سے میدان عمل میں یکجا دیکھنا چاہیں گے اگر وہ ایسا کر سکے تو یہ دونوں قوتیں ایسی طوفان کی شکل اختیار کریں گے جو تمام ناانصافیوں کو وقت کے فرعونوں کے ساتھ بہا کر لے جائیں گے.

اس میں زرا بھی شک نہیں کہ اگر بلوچوں اور پشتونوں نےمشترکہ طور پر مرکزی کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا تو وہ ملک کے اندر ناقابل تسخیر قوت بن جائیں گے مگر اس کے باوجود انھیں اپنے مقاصد میں مکمل طور پر کامیاب ہونے کیلئے بین القوامی تائید و حمایت کی ضرورت پڑے گی جو انھیں ضرور ملے گی بشرطیکہ کہ بیرون ملک مقیم بلوچ و پشتون ریاست کے دیگر ستائے ہوئے مظلوم اقوام کو انسانی حقوق کے موضوع پر ٹھیک ایسے پلیٹ فارم پر اکھٹا کریں جو عین وہی مسائل بارے مسلسل آگاہی مہم چلانے،لابنگ کرے جو بی وائی سی و پی ٹی ایم مشترک طور پر یا الگ الگ ملک کے اندر کر رہے ہوتے ہیں اس وقت بیرون ملک بلوچ گمشدگاں بارے خالص انسانی حقوق کے مسائل کو اجاگر کرنے انٹرنیشنل وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز اپنے تہیں کوشش کررہی ہے مگر اسے نئے حالات کے تقاضوں کے مطابق مزید فحال کرنے اور بلوچ سمیت دیگر مظلوم اقوام کے ساتھ اکھٹے جد و جہد کرنے کی راہیں تلاش کرنے کی ضرورت ہے. بلوچ و پشتونوں کا اتحاد اس لئے بھی ضروری کہ ریاست پر اب واضع ہوگیا ہے کہ ماہ رنگ بلوچ اور منظور پشین عوام میں کتنی گہرائی تک اپنی جڑیں گاڑھ چکی ہیں چونکہ ریاست انکے مطالبات منظور نہیں کرنا چاہتا تو وہ حسب سابق طاقت کا استعمال کرے گا اس سے خدشہ ہے کہ ان تنظیموں کے خلاف کسی بھی وقت ایسی کریک ڈاؤن ہوگی جس کا شاید تصور بھی نہیں کیا جاسکتا اور اسمیں بلاامتیاز تمام پاکستانی پارلیمانی جماعتیں خواہ وہ نام نہاد قوم پرست ہوں کہ مزہبی و مرکز پرست سب دوست، مخالف، ہمدرد، غمخوار جیسے مختلف کرداروں میں ڈھل کے اس طوفان کا راستہ روکنے کی کوشش کریں گے کیونکہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ اس انسان دوست تحریک کی کامیابی اُنکے سیاسی موت کا دوسرا نام ہے.

               (ختم شُد)