کراچی (ہمگام نیوز)بی ایس او آزاد کی مرکزی کال پر تنظیم کے سابقہ وائس چیئرمین زاکر مجید بلوچ کی اغواء نما گرفتاری کو 7سال کا طویل عرصہ مکمل ہونے اور ان کی عدم بازیابی کے خلاف آج کراچی پریس کلب کے سامنے یک روزہ احتجاجی کیمپ کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں بی ایس او آزادکے کارکنان اور بلوچ عوام سمیت انسانی حقوق کے تنظیموں کی کارکنوں نے شرکت کی۔ سول سوسائٹی کے کارکنان نے بی ایس او آزاد سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں طلباء کی گمشدگی و ان کے لاشوں کی برآمدگی جمہوری سیاست کو ناممکن بنا رہے ہیں۔ بلوچ طلباء و سیاسی کارکن سیاسی آزادی جیسے بنیادی حقوق کے حصول کے لئے بھی اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کررہے ہیں۔ زاکر مجید بلوچ، زاہد بلوچ، ڈاکٹر دین محمد، رمضان بلوچ جیسے ہزاروں سیاسی کارکن صرف سیاسی وابستگیوں اور جمہوری جدوجہد کی پاداش میں فورسز کے ہاتھوں اغواء کے بعد لاپتہ کیے جا چکے ہیں،فورسز ہزاروں سیاسی کارکنان کو ٹارگٹ کلنگ و اغواء کے بعد شہید کرچکے ہیں جن میں بی ایس او آزاد کے سیکرٹری جنرل رضا جہانگیر، بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین غلام محمد بلوچ، ڈاکٹر منان بلوچ، کمبر چاکر، کامریڈ قیوم، رسول جان سمیت لاتعداد سیاسی کارکن و لیڈران شامل ہیں۔ بلوچستان میں سیاسی جدوجہد کرنے والے کارکنان کی جدوجہد مظلوم قوموں کے لئے مشعل راہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں سیاست و سیاسی پارٹیوں پر عملاَپابندیوں کے باوجود سیاسی کارکنان کی جدوجہد اور اپنی پیغام کو جمہوری شکل میں دنیا تک پہنچانے کے لئے پرامن ذرائع کا استعمال محکوم قوموں کو اپنے حقوق و آزادی کے لئے جدوجہد کا درس دیتی ہے۔ اس موقع پر بی ایس او آزاد کے رہنماؤں نے کہا کہ آج سے سات سال قبل بی ایس او آزاد کے اُس وقت کے سینئروائس چیئرمین ذاکر مجید بلوچ کو مستونگ پڑنگ آباد سے ریاستی فورسز و خفیہ اداروں کے اہلکار وں نے جبری طور اغواء کرکے لاپتہ کردیا ۔بلوچ قومی آزادی کی حصول اور بلوچ مستقبل کی تعمیر کیلئے ہزاروں ایسے نوجوان ریاستی زندانوں میں اذیت سہہ رہے ہیں۔بلوچ اسیران کی برداشت و شہدا کی قربانیاں قومی تحریک کے اہم اثاثے ہیں۔رہنماؤں نے کہا کہ بلوچ سیاسی کارکنان اپنے مقصد کے حصول کے لئے قربانیوں کی قابل فخر تاریخ رقم کرچکے ہیں۔ زاکر مجید بلوچ، زاہد بلوچ و دوسرے نظریاتی لیڈران کی جدوجہد کو ان کی گرفتاری سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ قابض ہمیشہ اس غلط فہمی میں ہوتے ہیں کہ طاقت کا استعمال محکوم قوموں کو جدوجہد سے دستبردار کر سکتی ہے۔لیکن آزادی پسند جہد کاروں کی جدوجہد نے جس طرح دنیا کے دوسرے خطوں میں قابضین کے طاقت کی منطق کو غلط ثابت کردیا ہے اسی طرح بلوچستان میں بھی طاقت کا جارحانہ استعمال ریاست کی قبضہ گیریت کی کمزور ہوتی گرفت کو سہارا دینے میں ناکام ہورہی ہے۔ بلوچ نوجوان جذبات کے بہکاوے یاخیالی دنیا میں رہنے کے بجائے شعوری طور پر قربانیاں دے رہے ہیں۔بی ایس او آزاد کی احتجاجی کیمپ میں سول سوسائٹی اور بلوچ ادیب و دانشور استاد محمد علی ٹالپر ،صحافی موسی کلیم نے کیمپ میں آکر زاکر مجید کی طویل گمشدگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے انسانی حقوق کی عالمی اداروں سے اپیل کی کہ متعلقہ ادارے ہزاروں بلوچ سیاسی کارکنان کی بازیابی کے لئے اپنا کردار ادا کریں ۔علاوہ ازیں بی ایس او آزاد کی مرکزی کال پر آج 8جون کوآواران،جھاؤ،کولواہ،بالگتر،گورکوپ اور تمپ سمیت مختلف زونوں میں ریفرنسز منعقد کیے گئے۔ جن میں بی ایس او آزاد کارکنوں و عوام کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔