دوشنبه, اکتوبر 14, 2024
Homeآرٹیکلزروایات ،تحریر باہند بلوچ

روایات ،تحریر باہند بلوچ

(ہمگام کالم )

بلوچ قوم اس دنیا میں باقی قوموں کی طرح ایک تاریخ رکھتی ہے، باقی اقوام کی طرح اس کی بھی تہذیب، ترقی، خوشحالی، جنگ، امن، محبت، نفرت وغیرہ کی داستانیں وجود رکھتی ہیں۔ ویسے ایک قوم کی حیثیت سے یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ ہماری تاریخ اور قدیمی ادوار تحریری صورت میں موجود نہیں ہیں جہاں ہم اپنے قدیمی ادوار کے حالات سے بخوبی باخبر رہ سکیں۔ ہمارے پاس وہ حالات صرف قدیمی شاعری کی صورت دستیاب ہیں مگر وہ بھی تحریری صورت میں نہیں ہیں بلکہ زبانی کلامی کے زریعے سینہ در سینہ ایک نسل سے درسری نسل تک پہنچتے رہے جن کو دور حاضر میں کچھ بلوچ ادیبوں نے آدھی، ادھوری صورت میں تحریری شکل دی ہے جو کہ ہمارے لیے بصورت ایک قوم کسی خزانے سے کم نہیں ہیں۔ دراصل قوموں کی وجود ہی اپنی تاریخ اور تہذیبی ارتقاہ پر مبنی ہے اور یہی وہ دو علامات ہیں جس سے ہم اپنے حال اور مسقبل کے سمتوں کا تعین کرتے ہیں۔

ہماری تاریخ بھری پڑی ہے ایسے واقعات سے جن پر ہمیں بحیثیت ایک قوم کوئی ندامت نہیں ہوتی۔ جہالت دنیا کی تمام اقوام میں ہوتی رہی ہے اور ہم میں اس عنصر کی موجودگی کسی اچھنبے کی بات نہیں لیکن اس جہالت کے ساتھ ساتھ ہمیں ان فیصلوں کی وجوہات پر ضرور فخر ہوگا۔ اب چونکہ ان فیصلوں کی وجہ سے ہم نے نقصانات اٹھائے تو ہم قطعاَ یہ نہیں کہ سکتے کہ وہ فیصلے ہی غلط تھے بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ ان کو “مس ہینڈل” کیا گیا تو شائد زیادہ بہتر ہو۔

ہماری تاریخی روایات جن پر ہم سب سے زیادہ فخر کرتے ہیں وہ “باہوٹ یا میار جلی” اور “زبان” کی اہمیت اور حیثیت ہیں جہاں پر ہم بڑے فخر سے اپنی قومی اثاث کے طور پر ان کا ذکر کرتے ہیں۔ چاکر و گہرام کی داستان ہو یا بیبگر و دودا کی یا پھر بلیدہ کے علاقے “باگاڈءِ ڈن” کا واقعہ مگر ان تین داستانوں میں ایک ہی چیز مشترک ہے جو “باہوٹ یا میار جلی” کی داستانیں بیان کرتی ہے۔ اس کے علاوہ دوسرا عنصر ان تمام مندرجہ بالا واقعات میں قول و فعل کا مشترک ہونا ثابت ہوتا ہے جہاں دسیوں، سینکڑوں اور ہزاروں جانیں صرف اپنی زبان کے دفاع میں قربان کی گئیں۔

زبان، وعدہ اور قول بلوچ معاشرے میں ایک وقت تک اتنی اہمیت رکھتا تھا کہ اس کی ایک کہاوت وجود میں آئی اور ہم ہمیشہ اس کو دہراتے تو رہتے ہیں پر شائد اس کے مطلب، اہمیت اور قیمت سے نا آشنا و نا واقف ہیں۔ ہم بڑے ناز اور فخر سے یہ تو کہتے ہیں کہ “منءَ بلوچی واھدءَ انت یا بلوچ پہ زبان” مطلب جہاں ہم کوئی وعدہ کرنا چاہیں تو قسم و قرآن کا سہارا نہیں لیتے بلکہ بلوچی روایات کا وعد و وعید کرتے ہیں جو ہمیں ہمارے ماضی میں لیکر جاتا ہے اور ہمارا ماضی ہمیں ان تمام داستانوں میں جہاں ایک بلوچی قول اور پھر سینکڑوں ہزاروں لاشیں پر قول سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنا ندامت اور شرمندگی کا سبب بن جاتا ہے۔ قول اور زبان کے خلاف جانا اتنا بُرا سمجھا اور مانا جاتا رہا ہے کہ وہ شخص شائد بلوچ معاشرے میں اچھوت بن جائے جس کا قول کسی بھی وجہ سے پورا نہ ہوپائے۔ اب وجوہات مالی نقصان، فائدے اور جانی نقصان و فائدے دونوں صورتوں میں آ سکتی ہیں۔

میر چاکر رند، میر ہیبتان، جاڈو جلب اور شے مرید کی داستانیں ہمیں بار بار اپنے معاشرے میں قول و زبان کی اہمیت و افادیت دکھاتے ہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ اس سادگی اور جہالت کا غلط فائدہ اُٹھایا گیا تھا لیکن جس طرح میں نے پہلے کہا کہ ہم اس کو “مس ہینڈل” کرنے سے تو ضرور تشبیح دے سکتے ہیں لیکن ہم قول و زبان کی روایت سے انکاری نہیں ہوسکتے کیوںکہ اس طرح سے بھی بات “مس ہینڈل” کی طرف ہی جاتی ہے۔ جہاں تھوڑا سا فائدہ دیکھا اپنے وعدے سے پھر گئے اور یوٹرن لے لیا۔ جہاں تھوڑے سے نقصان کا اندیشہ ہوا وہاں اپنے قول سے پھر گئے ایسی کسی بھی صورت حال میں انتشار و غیر یقینی صورتحال کا اندیشہ ایک یقینی شے بن جاتی ہے۔ میر چاکر رند وعدہ کرتے ہیں کہ میں ایک درخت کے نیچے بیٹھوں گا اور اس کے باوجود کہ کوئی اس درخت کو کاٹنا شروع کرے میں پھر بھی نہیں اٹھوں گا، میر ہیبتان قول کرتا ہے کہ میرے اونٹوں کے ریوڈ میں کوئی بھی اونٹ شامل ہو میں وہ واپس نہیں کروں گا، جاڈو جلب وعدہ کرتا ہے کہ جو شخص میری داڑھی کو ہاتھ لگائے میں اس کا سر قلم کردوں گا اور شے مرید کا یہ وعدہ کرتا ہے کہ جمعرات کے دن صبح سویرے مجھ سے کوئی بھی شخص کوئی بھی چیز مانگ لے میں دے دوں گا۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ شے مرید اپنی پیاری منگیتر میر چاکر رند کو بخش دیتا ہے جس کے بعد خود برباد ہوتا ہے پر وعدے سے پیچھے نہیں ہٹتا اور جاڈو جلب اپنے پیارے پوتے (کچھ روایات میں یہ واقعہ بیٹے سے منسوب ہے) سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے جہاں وہ بچہ اس کی داڑھی کو ہاتھ لگاتا ہے اور وہ اپنے ہاتھ سے اس کا سر قلم کردیتا ہے مگر اپنی کہی ہوئی بات سے بلوچ روایات کے ہاتھوں مجبور ہوکرپیچھے نہیں ہٹتا۔

بلوچ تاریخ میں جو دو بڑی جنگی داستانیں ملتی ہیں وہ بالاچ گورگیج اور بیبگر پُژ اور میر چاکر رند اور گہرام لاشاری کے درمیان ہوئی ہیں جہاں سینکڑوں ہزاروں لوگ بلوچ روایات پر قربان ہوتے ہیں۔ دودا کے ہاں ایک بے بس عورت آکر پناہ لیتی ہے اس کے باوجود اس کی مال مویشی کو بی بگر لوٹ لیتا ہے جس پر دودا کی ماں اپنے جگر کے ٹکڑے کو یہ کہ کر نیند سے جگاتی ہے کہ “آمرد کہ میاراں جل انت، نیمروچاں نہ وپس انت کلاں” اور دودا کمزوری اور بے سروسامانی میں گھر سے نکلتا ہے یہ جانتے ہوئے بھی کہ میں سمی کی مال مویشی بازیاب نہیں کرا سکتا پر اپنی روایات پر مرکر زندہ رہنے کا اختیار میرا ہے اور یہ اختیار مجھ سے کوئی بھی نہیں چھین سکتا۔ اسی اختیار کو استعمال کرتے ہوئے وہ روایات پر مر کر ان کو زندہ رکھتا ہے۔ پھر دودا کا بیٹا بالاچ اپنے سے کئی گنا طاقتور دشمن سے لڑ کر ان کو مارتا ہے جس کی وجہ سے ہم بڑے فخر سے اپنے بچوں کا نام بالاچ اور دودا رکھتے ہیں۔

رند و لاشار یا چاکر و گہرام کی لڑائی بھی بلوچ تاریخ میں ایک باب کی حیثیت سے ہمیشہ زندہ رہے گا، جہاں ایک بے بس مگر مالدار عورت گوہر گہرام کے ٹیکس و بھتے سے تنگ آکر چاکر کے ہاں پناہ لیتی ہے اور گہرام اس کے مال مویشی کو نقصان پہنچاتا ہے۔ حالانکہ گوہر یہ جانتی ہے کہ اگر چاکر کو اس بات کی خبر ہوئی تو ایک بہت بڑی خونریزی شروع ہوگی لہٰذا وہ اس بات کو چاکر سے چھپاتی ہے لیکن چاکر اونٹنیوں کے گرتے دودھ سے اندازہ لگا لیتا ہے کہ ان کے بچوں کے ساتھ کچھ ہوا ہے تبھی تو ان اونٹنیوں کا دودھ اس طرح زمین پر گر رہا ہے وہ معلوم کرواتا ہے اور یوں ایک بہت زیادہ بھیانک جنگ کیطآغاذ ہوتی ہے۔ روایات کے مطابق کم و بیش 35 ہزار لوگ اس جنگ میں دونوں اطراف سے مارے جاتے ہیں لیکن روایات زندہ رہتی ہیں۔ کچھ لوگ اسی جنگ کو ہی بلوچوں کی مجموعی نقصان اور حالیہ حالات کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں لیکن اس وقت اس جنگ کے علاوہ کوئی دوسرا چارہ بھی تو نہیں تھا۔ بات یہاں تک پہنچی تھی کہ یا تو لٹیروں اور بد کرداروں کو بزور طاقت روکا جائے یا پھر کمزوروں، ناداروں اور بے بس لوگوں کو ان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے اور یوں وہ اپنی طاقت کو کمزور و ناداروں پر یوں ہی استعمال کرتے رہیں۔ یہ دراصل مجرموں کا احتساب تھا اور مجرموں کا ہمیشہ ایسا ہی احتساب ہونا چاہئے ورنہ یہ معاشرہ ذاتی و گروہی مفادات کی خاطر ہمیشہ گہرام و بیبگر ہی پیدا کرتا رہیگا۔ گوہروں اور سمیوں کوگہراموں اور بیبگروں کے شر سے بچانے اور نجات دلانے کےلئے چاکروں، دوداوں اور بالاچوں کا آنا ہمیشہ ضروری ہوتا ہے۔

تیسرا واقعہ بلیدہ کے ایک علاقے کا ہے جو آج بھی “باگاڈ ءِ ڈن” کے نام سے مشہور ہے۔ اس واقعے کی مکمل تفصیلات تو نہیں ہیں مگر ایک روایتی اندازے کے مطابق اس واقعے میں کوئی 35 سے 40 لوگ مارے جاتے ہیں۔ اس کی شروعات کچھ یوں ہوتی ہے کہ کچھ بچے ایک چھپکلی ( بلوچی میں بگاڈ) کے پیچھے بھاگتے ہیں تاکہ اس کو مار دیں۔ چھپکلی بھاگتے ہوئے ایک گدان میں گھستی ہے جہاں ایک عورت اپنے بچے کو دودھ پلا رہی ہوتی ہے۔ چھپکلی بھاگ کر بچے کے جھولے کے نیچے گھس جاتی ہے۔ عورت ان بچوں سے کہتی ہے کہ یہ چھپکلی میری پناہ (میار) میں آگئی ہے لہٰذا اب اسے چھوڑ دو پر بچے اس عورت کی بات نہ مان کر اس چھپکلی کو پھر بھی مار دیتے ہیں جس پر عورت شور مچا دیتی ہے کہ ان بچوں نے میری پناہ (میار) میں آئی ہوئی چھپکلی کو مار دیا ہے جس پر ایک لڑائی شروع ہوجاتی ہے اور اس کی وجہ سے اتنے سارے لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹتے ہیں۔

یہ سب آج سننے میں شائد کچھ عجیب لگیں کیوں کہ چھوٹی سی بات پر اتنا بڑا رد عمل نہیں ہونا چاہئے تھا لیکن یہ احتساب اور غلط کو روکنے کی ایک روایت اور قانون ضرور ہے جو بلوچ معاشرے نے پیدا کی ہیں۔ اس وقت ظلم اور غلط کو روکنے کا ایک پیمانہ ہوتا تھا چاہے ظلم ایک چھپکلی پر ہو یا ایک بے بس عورت پر، اس وقت زبان کی قدر ہوتی تھی،چاہے اس کی قیمت جان سے پیاری خوبصورت منگیتر ہو یا لخت جگر بیٹا ( کچھ روایات میں پوتا) لیکن قول ان سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا تھا۔ اس وقت لوگ سچ بولتے تھے چاہے اس کی قیمت کچھ بھی ہوتی، دراصل وہ اس بات پر محکم یقین رکھتے تھے کہ چھوٹے غلط کا احتساب بڑے غلط کو خود روکتا ہے، اور چھوٹے غلط پر آنکھیں بند کرنا بڑے غلط کو دعوت دیتا ہے۔ دنیا میں نہ ایسا کوئی ملک ہے نہ معاشرہ جہاں احتساب، اصول اور قانون نہ ہوں اور وہ ملک یا معاشرہ انتشار کا شکار نہ ہو۔ ملکوں اور معاشروں کی تعمیر کا دارومدار ہی احتساب، قانون اور اصولوں کی پابندی پر منحصر ہے۔ یہی چیز ایک ادارے، جماعت، تنظیم، گروہ حتیٰ کہ ایک گھر کو بیلنس اور موزوں رکھ سکتا ہے۔

اگر انہی روایات کو ہم تھوڑی سی گہرائی میں جاکر دیکھیں تو آج میں اور ہمارے ماضی میں بہت زیادہ فرق آگیا ہے۔ شائد پنجابی غلامی میں ہم ان سے متاثر ہوکر ان کی معاشرتی خصلتیں اپنے اندر “انجیکٹ” ہونے دے رہے ہیں۔ پاکستانی پارلیمانی سیاست دان چونکہ میدان میں اترتے ہی ذاتی اور گروہی مفادات کے حصول کی خاطر تگ ودو میں لگ جاتے ہیں مگر جو لوگ غیر پارلیمانی سیاست، میرا مطلب بلوچ وطن کی آزادی کی جہد میں برسرپیکار جہدکار میں ان خصلتوں کا شامل ہونا سمجھ سے بالاتر ہے۔ بلوچ قومی آزادی کی تحریک مکمل طور پر ایک رضا کارانہ عمل ہے اور اس میں ہر بلوچ کا شامل ہونا اس کی ذمہ داری ہے۔ کچھ لوگ اپنی اس ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے اپنے فرض کی ادائیگی کے لئیے میدان عمل میں نکلتے ہیں جو مکمل طور پر کسی مفاد، ذاتی مقصد اور ذاتی فائدے کے بغیر ہوتا ہے لیکن اس وقت جو صورتحال ہے وہ اس سے کہیں زیادہ مختلف اور جدا ہے۔ لوگوں کی باتوں میں اتنا تضاد موجود ہے جو ہمارے جیسے کسی ادنیٰ سیاست کے طالب علم کو بہت بڑی مشکلات سے دوچار کردیتے ہیں۔

اس حقیقت سے تو کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ بلوچ قومی آزادی کی جنگ میں وسائل کی ہمیشہ کمی رہی ہے اور وسائل پیدا کرنا سب سے زیادہ اہمیت کے حامل شے ہے، لیکن ان وسائل کے ذرائع کیا ہونے چاہیے شائد ہمیں اس کا یا تو اندازہ نہیں ہے اگر ہے تو غلط اندازہ ہے اگر یہ دونوں عوامل نہیں ہیں تو پھر تیسری اور آخری شے یہی بچتی ہے کہ وہاں ہماری ذات آجاتی ہے۔ اب ذاتی و گروہی مفادات کے تحفظ کے لئے ہم بلوچ کی اس جدوجہد کو داؤ پر لگا رہے ہیں جس کی مظبوطی اور مستحکمی کے لئے اب تک ہزاروں فرزند شہید ہوئے ہیں۔ منشیات کی لوٹ مار ہو یا دشمن قوتوں سے سازباز دونوں صورتیں ہمارے مجموعی طاقت اور شناخت کے لئے ایک کاری ضرب کی حیثیت رکھتی ہیں لیکن شائد ہمیں ان منفی رویوں کے نقصانات کا اندازہ نہ ہو یا پھر ہم جان بوجھ کر ان کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ ہم نے اس مختصر دورانیے میں لوگوں کو مختلف نظریہ رکھتے دیکھا ہے۔ اتنی جلدی تو کوئی اپنے جوتے بھی نہیں بدلتا جتنی جلدی ہم اپنا نظریہ و نقطہ نظر بدلتے ہیں۔ ان رویوں اور قول و فعل کے تضادات کو دیکھ کر لگتا ہی نہیں ہے کہ ہم انہی مندرجہ بالا نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ہمارے موقف میں کوئی نہ کوئی اور کسی نہ کسی طرح کا فرق آجاتا ہے۔

دوستوں کی محنت اور لگن سے تیار کردہ بلوچستان لبریشن چارٹر ہو، 13 نومبر ہو یا بلوچ قومی بیرک یہ تمام حقائق آج قوم کے سامنے ہیں کہ کس نے کب اور کس طرح اپنے قول اور زبان سے روگردانی کی، کوئی بھی شخص کسی بھی معاملے میں آج تک کوئی بھی خاطر خواہ جواب نہیں دے سکا اور نہ ہی کوئی ٹھوس دلیل کہ جناب اگر میں نے کوئی راستہ تبدیل کیا ہے تو اس کے پیچھے یہ شعوری و نظریاتی وجہ ہے بلکہ دشمن فوج کی طرح اپنے خلاف ہر اٹھنے والی آواز کو انڈیا، اسرائیل اور افغانستان سے نتھی کر کے الزامات کا نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع کردیا جاتا ہے، جب ان الزامات کے حوالے سے کوئی دلیل یا ثبوت مانگ لیا جائے تو آگے سے گالی گلوچ اور طوفان بد تمیزی شروع ہوجاتی ہے۔ کیا ہمارے سیاسی بزرگوں نے ہماری یہی سیاسی تربیت کی تھی جہاں ہم اس حد تک پستی کا شکار ہوگئے ہیں کہ اتنا تک خیال نہیں رکھتے کہ ہماری کہی ہوئی ساری باتیں ریکارڈ پر موجود رہتی ہیں۔ ماضی میں تو کوئی حساب کتاب یا ریکارڈ نہیں ہوتا تھا تب بھی لوگ جھوٹ بولنے سے گھبراتے تھے پر آج اس ڈیجیٹل دور میں جہاں آپکی کہی ہوئی ہر بات ایک آتما اور بد روح کی مانند آپ کے ساتھ ساتھ چلتی رہتی ہے لیکن اس سب کے باوجود لوگ بڑی ڈھٹائی اور بے شرمی سے جھوٹ بولتے ہیں۔

آج سے کچھ زیادہ نہیں 3 سے 4 سال پہلے کی باتیں اگر نکال کر دیکھی جایئں تو کم از کم بلوچ معاشرے اور روایات کے رو سے کچھ بد نما چہرے ضرور نظر آئیں گے جو کم از کم اس قابل نہیں ہونے چاہیئں کہ وہ کسی بلوچ معاشرے میں کسی کو اپنا چہرا دکھا سکیں۔ اس سے پہلے وہ ہم سب کو کس طرح، کن باتوں پر، کس کے حق میں اور کس کے خلاف دلیل اور شواہد دیتے رہے ہیں اور آج وہ سب راکھ کی مانند ایسے ہوا میں اڑ گئے کہ کہیں اس کا نام و نشان تک نہیں رہا۔ چلیں آپ کی مجبوری کو سمجھتے ہوئے آپ کی اس دلیل کو مان لیتے ہیں کہ آپ معصوم تھے، چھوٹے بچے تھے، آپ کی معصومیت، نابالغی، عمر اور سمجھ بوجھ سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے ناجائز اعمال کی تکمیل کروائی اور اچانک سے آپ بڑے ہوگئے،سمجھدار ہوگئے اس شخص کے عزائم کو پہچان گئے جو آپ کے بچپنے سے ناجائز فائدہ اٹھا رہا تھا اور اس مسئلے کا یہ حل نکالا کہ اسی کردار کی گود میں جاکر بیٹھ گئے جو کل تک ایک غیر سنجیدہ، موقع پرست اور منافق انسان تھا ان تمام خصوصیات کے ساتھ ساتھ وہ اس خصوصیت کا بھی مالک تھا کہ انہوں نے بلوچ کی دی ہوئی طاقت کو بلوچ کے خلاف استعمال کیا اور کئی بے گناہ لوگوں کو صرف ذاتی چپکلش، رنجش یا مخالفت پر موت کی نیند سلا دیا، میرا اشارہ یقیناَ معطل شدہ ٹولے کی جانب ہے جنہوں نے کل تک باقاعدہ طور پر ایک شخص کو بلوچ دشمن ثابت کیا اور اس حوالے سے کئی دلائل پیش کئے مگر آج اپنی کہی ہوئی ان تمام باتوں سے اس طرح روگردانی کر رہے ہیں کہ جیسے کل کچھ ہوا ہی نہیں۔ یہ بھی خیال اور ذہن میں نہیں رکھا کہ کل تک ہم اس شخص کے بارے میں قوم کے سامنے کس کس طرح سے دلیل دے کر کہتے تھے کہ یہ شخص دشمن فوج کا ایک ستون ہے، یہ اور اس کی تنظیم بلوچ دشمن اعمال میں ملوث ہے، مگر آج اسی کے ساتھ بیٹھا بھی جارہا ہے اورانہی کے بقول ان کی سازشوں کا بھی حصہ بن رہے ہیں۔

اس وقت پوری دنیا میں مغرب کی حکومت اور اجارہ داری ہے، اگر ان کے معاشرے اور معاشرتی اقدار کو گہری نگاہ سے دیکھا جائے تو وہاں ہمیں اصول اور نظم و ضبط کے علاوہ کوئی دوسری شے نظر نہیں آتی۔ مغرب میں کسی بھی شخص کو آپ ماں بہن کی گالی دیں وہ سہ لیگا اور شائد آپ کو پلٹ کر جواب بھی نہ دے مگر آپ اس کو جھوٹا، منافق یا چور بول کر دیکھ لیں یا تو وہ آپ کو مار دے گا یا خود مرے گا لیکن آپ کی اس گالی کو برداشت نہیں کریگا۔ اب اگر اسی چیز کو ہم تھوڑی سی مزید گہرائی میں دیکھ لیں تو ایک چیز تو بلکل واضح ہوجاتی ہے کہ انسان جھوٹ اس وقت بولتا ہے جب اس کو سچ بولنے پر کوئی وقتی نقصان ہو یا جھوٹ بولے بغیر وہ کوئی فائدہ حاصل نہ کر سکنے کی پوزیشن میں ہو۔ اس نقصان سے بچنے اور کوئی فائدہ حاصل کرنے کی خاطر جھوٹ بولا جاتا ہے۔ اب یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ آپ جھوٹ بول کر اپنا فائدہ حاصل کریں اور آپ کے فائدہ حاصل کرنے کے پیچھے کسی کا نقصان نہ ہو، اس کا یہ مطلب ہوا کہ آپ اپنے آپ کو آرام دہ بنانے اور فائدہ حاصل کرنے کےلئے کسی اور کا نقصان کر رہے ہیں جو یقیناَ صحت مند معاشروں میں قطعی طور پر قابل قبول نہیں ہوسکتا۔

اصول اور نظم و ضبط ہی آپ کو ایک ٹریک پر رکھنے اور اسی کے مطابق چلانے کا پابند بناتے ہیں۔ دنیا کا ایسا کوئی ملک، ادارہ یا معاشرہ نہیں جہاں پر پہلے سے طے شدہ اصول وجود نہ رکھتے ہوں۔ وہ اصول آئین کے نام سے جانے جاتے ہیں جہاں پر ہر عمل اور حرکت کو اسی طے شدہ اصول کے سانچے میں ڈھالا جاتا ہے تاکہ انتشار اور بدمزگی سے بچا جا سکے۔ جہاں اصول توڑے جاتے ہوں وہاں پر غیر یقینی صورتحال کا وجود پانا کسی بھی طرح سے حیرانگی کی بات نہیں ہوسکتی۔ اصولی دستاویز ہمیشہ ہر کسی کے حقوق اور فرائیض کی نشاندہی کرتا ہے اور اسی دستاویز کے ذریعے آپ کے حقوق اور فرائیض کی نشاندہی کی جاتی ہے۔ دشمن ملک پاکستان کے آئین کے مطابق آرٹیکل 6 کی خلاف ورزی غداری کے زمرے میں آتا ہے لیکن اس آئین کی دھجیاں بار بار کئی بار اڈائی گئیں لیکن ہم نے وہاں پر اس آرٹیکل کو لاگو ہوتے کبھی نہیں دیکھا بلکہ اس آئین کی خلاف ورزی کرنے والے ہمیشہ اس بنیاد پر استثنیٰ مانگتے ہیں کہ جی ہم لڑ رہے ہیں اور آپ کی حفاظت کررہے ہیں ہماری ہی بدولت آپ اپنے گھر میں آرام سے سو سکتے ہیں اور یہی رویہ اور طرز و طریقہ ہمارے ہاں بھی بڑے اہتمام کے ساتھ دہرایا جا رہا ہے۔ بلوچ عوام کو طرح طرح جذباتی ماحول میں ڈال کر کمال صفائی سے اپنے سیاہ اعمال کو آگے بڑھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

اب ہم پڑھ لکھ گئے ہیں، ٹیکنیکل اور سمجھدار ہوگئے ہیں، اب ہم اکنامکس کو سمجھنے لگے ہیں اور اپنے مالی فائدے کے لئے دوسروں کو آگ کی بھٹی میں جھونکنے کا ہنر جان گئے ہیں۔ اب ہم موقع پرستی بھی سیکھ گئے ہیں اور اس حد تک اس میں گر گئے ہیں کہ اپنے آپ کو مالی فوائد پہنچانے کی خاطر دشمن سے بھی ہاتھ ملاتے ہیں اور اس کی گود میں بھی بیٹھ جاتے ہیں۔ اپنی جھوٹی شان کی خاطر لوگوں کو مارتے بھی ہیں اور مرواتے بھی ہیں۔ وقتی فائدے حاصل کرنے کے لئے جھوٹی شان بھی بیان کرتے ہیں اور لاقانونیت کو ہوا دیتے ہیں۔ اپنی کل کی کہی ہوئی باتوں کا کوئی پاس نہیں رکھتے اور یہ تک ذہن میں رکھتے کہ میری کہی ہوئی ساری باتیں ریکارڈ پر موجود ہیں اور میں کس اخلاقی دائرے میں رہ کر ان کو نظر انداز کر سکتا ہوں۔ اس طرح کے رویے وقتی طور پر تو شائد کچھ فائدہ دیں لیکن مستقبل قریب میں ان کا وہ بھیانک اورخطرناک چہرا سامنے آیئگا جس کو دیکھنے کی شائد ہم سکت، ہمت اور حوصلہ نہیں رکھتے۔

یاد رکھیں تاریخ ہمیشہ سے ایک آئینہ رہی ہے اور آئیندہ بھی ایک آئینہ کی صورت میں وجود رکھے گی۔ یہ انتہائی بے رحم ہے، جس طرح سے چاکر، گہرام، بیبگر، شے مرید، بالاچ، دودا، حمل، مہراب خان، نواب نوروز خان تاریخ کے صفحوں پر موجود ہیں اسی طرح ہم سب نے تاریخ کے صفحوں میں کسی نہ کسی طرح سے رہنا ہے۔ اچھا اور مثبت عمل ہوگا تو تاریخ میں ایک اچھے دور اور روایت کے طور پر ہمیں یاد رکھا جائیگا اور اگر منفی اور برا عمل ہوگا وہ بھی ٹھیک اسی طرح سے ہی تاریخ کے بے درد صفہوں میں جگہ بنائے گا۔ تاریخ میں سرخرو اور کامیاب ہونے کےلئے ہمیں کچھ ذاتی اور گروہی مفادات قربان کرنے ہونگے نہیں تو ہمارے لئے تاریخ میں کوئی معافی نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز