پنجشنبه, فبروري 13, 2025
Homeخبریںریاست بلوچستان میں ایک خوفناک صورت حال پیدا کررہی ہے۔ بی وائی...

ریاست بلوچستان میں ایک خوفناک صورت حال پیدا کررہی ہے۔ بی وائی سی کی پریس کانفرنس

معزز صحافی حضرات!

جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ بلوچستان میں آئے روز ریاستی اداروں کی جانب سے لوگوں کو جبراً اغواء کرنا اور ماورائے عدالت قتل کرنا ایک معمول بن چکا ہے۔ آج اسی توسط سے ہم آپ سے مخاطب ہوکر صرف اسی مہینے یعنی جنوری 2025 میں بلوچستان میں ہونے والے انسانی حقوق کی پامالیوں کو آپ کے سامنے لانا ہیں تاکہ آپ حضرات اپنے پیشے سے انصاف کرکے ان بد ترین انسانی حقوق کے پامالیوں کو دنیا کے سامنے لانے میں ہماری مدد کر سکیں۔

اس ماہ جو ماحول بلوچستان میں ریاستی اہلکاروں نے بنایا ہے ہم اس کی مذمت کرتے ہیں اور ہر فورم پر اس غیرقانونی اور غیر انسانی عمل کے خلاف عملی مزاحمت کریں گے۔

معزز صحافی حضرات!
جبری گمشدہ افراد کا مسئلہ بلوچستان میں سنگین شکل اختیار کرچکا ہے اور ریاستی ادارے اس غیرقانونی اور غیر انسانی عمل کو روکنے کی بجائے اس میں زیادہ شدت لائے ہیں۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے انسانی حقوق کے ڈیپارٹمنٹ کو صرف جنوری کے رپورٹ میں بلوچستان کے مختلف علاقوں سے 88 لوگوں کی جبری گمشدگیوں کے کیسسز رپورٹ ہوئے یہ وہ کم سے کم تعداد ہے جو خوف و ہراسانی اور کمیو نکیشن کے فقدان باعث ہم تک پہنچ سکی البتہ ہم یہ یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہے حقیقی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہیں جو بے شمار وجوہات کے بنا پر رپورٹ نہیں ہو سکے ہے۔ اس 88 رپورٹڈ کیسز میں مکران ریجن سر فہرست ہے جہاں سے صرف ایک مہینے کے اندر 43 لوگوں کو جبراً اغواء کیا گیا ہے۔ اسکے علاوہ ماہ فروری میں ہوئے جبری گمشدگیاں ان میں شامل نہیں جس میں اب تک وسیم ملنگ، سہیل عبداللّٰہ، شاہجان غلام محمد ، عبدل جمیل، حاجی حبیب، محمد اقبال، عبدل رحمان، اسد بلوچ فیض محمد، سمیع اللہ خلیل، رحمان اور عارف پیربخش کے جبری گمشدہ ہونے کے کیسز رپورٹ ہوئے ہے ۔

معزز صحافی حضرات!
ریاست کی جانب سے میں بلوچ نسل کشی کے نہ رکنے والے سلسلوں نے بلوچستان میں ایک خوفناک صورت حال پیدا کررہی ہے جہاں ایک طرف جبری گمشدگیوں جیسا سنگین جرم بغیر کسی روک تھام کے جاری ہے وہی نسل کشی کے پالیسیوں میں ایک نئی تشویش ناک سلسلے کا اضافہ کیا گیا جسے حرف عام میں نامعلوم افراد کی جانب سے ٹارگٹ کلنگ کا نام دیا گیا ہیں مگر در حقیقت یہ اسٹیٹ اسپانسرڈ ملیشیاء کی جانب سے ایکسٹرا جوڈیشل کلنگز کا مقدمہ ہے جس میں خصوصا بلوچ نوجوانوں، طالب علموں، شاعروں اور دیگر بلوچ جو شعور رکھتے ہیں انہیں ڈیتھ اسکواڈ کے ہاتھوں ماورائے عدالت انہیں قتل کیا جارہا ہیں۔ جن میں حالیہ طور پر تربت میں شہید کئے گئے اللّٰہ داد بلوچ جو ایک ایم فل اسکالر تھے وہ بھی شامل ہے۔ اسکے علاوہ بلوچ تعلیم دان و استاد شریف زاکر بھی شامل ہے ۔

معزز صحافی حضرات!
آپ کے توجہ کل ہی بلوچستان میں ایک اور ہولناک واقعے کی جانب لے جاتے ہے ۔ کل بروز منگل جہاں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے جانب ایکسٹرا جوڈیشل کلنگز کے خلاف تربت میں لگائے گئے احتجاجی کیمپ کا تیسرا و آخری دن تھا اسی روز جبری گمشدہ کئے گئے سولہ سالہ حیات سبزل کو ماورائے عدالت قتل کرکے انکی لاش پنجگور گریڈ اسٹیشن کے قریب پھینک دیا گیا۔ حیات سبزل جس کو 3 جولائی 2024 کو ایف سی و سادہ وردی میں ملبوث اہلکاروں نے تربت سے اغواء کیا تھا۔

2024 کے آخری مہینوں اور 2025 کے ابتداء میں اب تک درجن بھر افراد ٹارگٹ کلنگ کئے جا چکے ہیں ان میں چند کیسز یہ ہے۔ فقیر جان اور عصا بلوچ کو آوران سے جبری گمشدہ کرکے لاشیں پھینک دی گئی۔ تربت کے علاقے تمپ میں ستمبر کے ماہ میں ظریف بلوچ کو جبری گمشدہ کرنے کے بعد انتہائی تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد شہید کرکے لاش پھینک دی گئی اور جب ورثاء نے لاش لیکر احتجاج کرنا چاہا تو تمپ بھر میں کرفیوں نافظ کی گئی اور تب تک ورثا کو محصور رکھا گیا جب تک انہوں نے مجبور ہوکر لاش دفنا دیا۔ گوادر میں 11 جنوری کو زکریا بلوچ کو ٹارگٹ کلنگ میں شہید کردیا۔ زکریا بلوچ چند ماہ قبل جبری گمشدہ کا شکار بنائے گئے جنہیں خاندان کے مسلسل احتجاج کے بعد رہا کیا گیا تھا۔ اسی روز بلوچستان کے علاقے زہری میں ایف سی نے سرچ آپریشن کے دوران ایک پندرہ سالہ بچے کو اندھا دھند فائرنگ کرکے شہید کردیا۔ اسی طرح دس دسمبر 2024 میں لاپتہ کئے گئے منظور افضل بلوچ کو 12 جنوری 2025 کو انتہائی وہشیانہ طریقے سے قتل کیا گیا۔ فورسز کی جانب سے جبری گمشدہ افضل منظور پر بمب باندھ کر اڑا دیا گیا۔25 جنوری کو مشکے میں پنڈول سومار کو فورسز نے تحویل میں لے کر شدید تشدد کا نشانہ بناکر شہید کردیا، 4 فروری کو بلوچ اسکالر اللہ داد بلوچ کو ٹارگٹ کرکے شہید کردیا گیا، اور 11 فروری کو جبری گمشدہ کئے گئے حیات سبزل کی مسخ شدہ لاش پنجگور سے برآمد ہوئی جبکہ پروفیسر شریف بلوچ کو بھی نشانہ بنایا گیا جس میں وہ معجزانہ طور پر محفوظ رہے

معزز صحافی حضرات!
بلوچستان میں بلوچ نسل کشی کے ساتھ تعلیمی نظام کو بھی ایک عرصے سے ریاستی جبر کا سامنا رہا ہے، جس میں طلباء و اساتزہ کو شہید کرنا، اسکولوں کو جلانا، کتاب پڑھنے پر تشدد کا نشانہ بنانا وغیرہ شامل ہے۔ بلوچ استاد شریف بلوچ کو مسلس ٹارگٹ کرنا بھی اسی تسلسل کا حصہ ہے۔ کل جہاں شریف بلوچ پر اندھا دھند فائرنگ کیا گیا اس سے چند روز ان کے گھر پر دستی بمب حملہ کیا گیا اور بعد میں کمسن بیٹے اور ایک رشتہ کو بھی جبری گمشدہ کیا گیا۔ اس عمل کا واحد مقصد شریف بلوچ کو بلوچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کی سزا دینا ہے۔

معزز صحافی حضرات!
بلوچستان میں اس خوفناک ماحول اور ریاستی اداروں کی بربریت کو روکنے کے لیے ہم انسانی حقوق کے اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اپنا کردار ادا کریں۔ اور ہم ریاستی اداروں کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ ہم آپکی ان بلوچ نسل کشی پالیسی کے خلاف اپنی آواز قومی اور بین الاقوامی اداروں تک پہنچا کر سیاسی مزاحمت جاری رکھیں گی۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز