سه شنبه, اکتوبر 1, 2024
Homeآرٹیکلززنگیدہ لوہااور ہماری کاریگر ی؟ تحریر:منجروگٹ بلوچ

زنگیدہ لوہااور ہماری کاریگر ی؟ تحریر:منجروگٹ بلوچ

انسان کی فطرت اس کی ضروریات و خواہشات کو دیکھا جائے تو اس کیلئے دنیا میں سب سے بڑی نعمت آزادی ہے،وہ آزادی جس میں اسے معاشی،سیاسی سماجی،ثقافتی ،جان و مال کی سلامتی عزت نفس، سفارتی، مذہبی، سوچنے اور بولنے کیلئے اظہار رائے کی آزادی حکمرانی کی حق آزادی ہو وغیرہ،جب موضوع بحث کسی مخصوص جغرافیہ تاریخ زبان ثقافت اور قوم کی ہو تو اسے قومی آزادی کا نام دیا جاتا ہے،آج بلوچ معاشرہ اسی کشمکش میں سرگردان نظر آتا ہے ،کیونکہ وہ سرزمین کا مالک ہوتے ہوئے بھی دربدر پریشان مفلسی کی زندگی گزارنے پر مجبور اپنے وطن کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑاہواپاتاہے،ان تمام مصیبتوں کاحل اور ان سے چھٹکارہ صرف اور صرف قومی آزادی ہی سے ممکن ہے،قومی آزادی کیلئے قومی ریاست کا وجود پانا لازم ٹھہرتا ہے!قومی ریاست کیلئے ضروری ہے ،کہ قو می جدو جہد ہو،اور قومی جدوجہد قوم کے افراد کے ساتھ لازم و ملزوم ہے،قومی آزادی تحریک کی بدولت آج کے اس انقلابی درسگاہ میں ہم سب سیکھنے اور سکھانے کے درس و تدریس کے مرحلے سے گزر رہے،اگر کئی کسی کو کمی بیشی نظر آئے تو اسے انقلابی محسن بن کر رہنمائی کی جائے ،تب بات کچھ بن سکتی ہے،وگرنہ چاکر کایہ رندی مزاج ہمیں کئی اور بند گلی میں لے جاسکتا ہے! انسانی معاشرے میں انقلابی شعوری تنقید سے کوئی ذی شعور انکار نہیں کرسکتا،لیکن بے ہنگم اوربے لگام تنقید کا دفاع بھی صحتمندانہ نہیں کہا جاسکتا،جبکہ ماہر عمرانیات کا کہنا ہے،کسی بھی سماج میں کئی بھی کوئی مسئلہ درپیش ہو تو اس کا حل وہی موجود ہوتا ہے،جب اس کا حل ہمارے اپنے ہی سماج میں موجود ہو تو اسے حل کرنے کیلئے ہم اپنے سماجی اقدار کو کیسے نظر انداز کرسکتے ہیں؟ اور کیوں غیر محتاط رویہ اپناتے ہے؟ بلوچ کی اصل قوت بلوچ عوام ہی ہیں، لہذا قوت کے اس مرکز کو غیر اہم سمجھ کر نظر انداز کرنا کبھی بھی دانشمندی نہیں کہا جاسکتا!عوام کی ایک اچھی خاصی تعداد پارلیمانی باجگزاروں کے پاس ہیں،اسی مناسبت سے دوسرے وفاق پرستوں کے ساتھ پھنسے ہوئے ہیں،ایک وسیع حلقہ سیاسی بیگانگی کا شکار ہیں، جسے کسی اونچ نیچ سے کوئی سروکار نہیں،بہت سے مذہبی ملاؤں کے ہتھے چڑھ گئے ہیں،جو دنیا کی تمام مظالم اورناانصافیوں کی وجہ کو غیرسائنسی طریقے سے لوگوں کے شعور پر پردہ ڈال کر ان آفاقی سمجھ کے انسانی شعور کو سلایا جاتاہے. اور اب جو باقی Row material پاس موجود ہے اسے ایک انقلابی استادکا کردار ادا کر کے کا رآمد بناکے قومی ظاقت اور حلقہ اثر میں وسعت دی جاسکتی ہے، نہ کہ دور پھینک کر یا اسے بھاگنا.اگر موخر ذکر جیسا ہوا تو آج کے اس انقلابی کارکن کی صلاحیتوں پر سوالیہ نشان ؟ لازم قرار پاتاہے، آج بلوچ قوم کو جن چیلنچز کا سامنا ہیں، اس سے لا پرواہی نہیں کیا جاسکتا،کیونکہ آج پنجابی سامراج کی نوآبادیاتی عرائم کو دیکھ کر بلوچ کی قومی شناخت اور قومی بقاء مکمل خطرے میں ہیں،سیاسی ، سماجی رویوں کو ہمیں اس غلامانہ دور کو ضرور مدنظر رکھنا ہو گا،اسی تناسب سے ہم نے ان سے توقعات وابسطہ رکھنا ہیں،ان معروضی سماجی، سیاسی مسائل کو دیکھ کر اور مزاجوں کی اساسیت کا اندازہ لگا سکتے ہے آج کا بلوچ اپنے ساتھ 68 سال کی غلامانہ سماجی شعور اور رویوں کے ساتھ آزادی کے جہد کیلئے میدان عمل میں ہاتھ پاؤں مار رہا ہیں،میدان عمل میں جنگ کی درجہ حرارت کی گرمی اور ظالم کی مزید بربریت نے68سالہ غلامانہ دور کے بلوچ کوزنگ ذدہ پرانا لوہا جیسا بنا دیا ہیں،اب کوئی ہنر مند کاریگراس زنگیدہ لوہے سے مختلف ضروریات زندگی کھیتووں میں ہل چلانے،اس سے تلوار بنانا،مشینریوں کیلئے پرزہ بنانے سے اس وقت تک ضرور احتیاط برتے گا جب تک اس سے زنگ دور نہ ہو، آج کے بلوچ معروضی سیاسی حالات میںCONSCIENTIZATION تنقیدی شعور کے زریعے اس زنگ ذدہ لوہے کوبعض لوگ بے احتیاطی سے FORGE لوہے کی بھٹی میں ڈال رہے ہیں.اور ہمارا یہ عمل اگر محتاط انداز سے ہو تو لوگوں کی رہنمائی کاسبب بن جاتاہے،لیکن اگرغیر محتاط طریقے سے جاری رہا تو یہ ،”تباہ کن تعصب پسندی”تنگ نظری اور ردعمل،انتقام کی طرف لیجاسکتاہیں.اور تعصب پسندی کی بنیاد پر پیدا ہونے والی سوچ معاشرہ کوبانجھ پن ، انارکی ،سیاسی جمود ، ہٹ دھرمی کی جانب دکھیل سکتاہے،جب انقلاابی دور میں ایسے سیاسی بیماری پیدا کئے گئے تو یہ عمل دشمن کو طاقت دینے کے برابر ہوگا!تنگ نظری جھوٹے نظریہ کو جنم دیتی ہے،سیاسی عمل سے بیگانگی مایوسی انتشار ،انتقام کی سوچ پیدا کرتی ہیں. اور ایسے عمل کوئی انقلابی نہیں کر سکتا،جبکہ ایک انقلابی قوم کے ساتھ انتہائی عاجز ،صابر اوردشمن کے ساتھ جارح رویہ اپناتا ہے، انقلابیت تخلیقی اورآزادی کیلئے سودمند ہوتی ہے،کیونکہ انقلابیت شعوری ہوتی ہے،اور فرد کی وابستگی میں مزید پختگی پیداکرتی ہے،اور عملی شرکت کے مواقع پیدا کرتی ہے،انقلابی ذاتیات بد اخلاقی کواپنے فکر کیلئے زہر قاتل سمجھتا ہے،آج کے ہمارے سنگت تنقیدی عمل بعض اوقات تعصب پسندی کے قریب تر نظرآتے ہے،جب ان کو اسی تنقیدی عمل کے زریعے جسے وہ خود فالو کر رہا ہے کی نشاندہی کی جاتی ہے ،تو جواب اس کا یہ ہوتاہے کہ یہ تو میرا ذاتی رائے ہے،مگر کیسے؟ اب اگر بہت سے موضوعات کو دیکھ کر اور کافی عرصے سے بحث و مباحثہ میں مصروف مثال کے طور کوئی سنگتShamoz پر تنقید کرے اور اس کا جواب یہ ہو کہ یہ تو میرا ذاتی رائے ہیکیا کوئی اس بے وزن جواب سے مطمئن ہو سکتا ہے؟ نہیں ہر گزنہیں کیونکہ اتنے عرصے کے حاصل کو دیکھ کر سنگت Shamoz کا آزادی کے ایک خاص حلقے کے ساتھ پہچان بن چکاہے،اور اس سے فرار ممکن نہیں،مناسب یہی ہے کہ ہم خود سری کو چھوڑ کر ذمہ دارسنجیدہ اور اپنے کو جواب دہ سمجھے،آج کے بحران ذدہ سیاسی ماحول کی وجہ سے ایسے ہی بے احتیاطی سے ہم انقلاب کی خدمت کم دوسروں کو زیادہ ردعمل پراکساتے ہے،آخر کیوں؟تنقید کرنے والے کیلئے یہ نقطہ بھی خاص اہمیت رکھتاہے کہ وہ اپنے آپ کو متنازعہ نہ بنائے،عوام کے ساتھ اپنے اعتماد کو خراب نہ ہونے دے!جس پر تنقید کیا جارہاہیں انھیں وضاحت کا موقع دیا جائےآج آپ نے ان پر تنقید کی فوراََ دوسرے دن اگلا موضوع آن پڑا،اگر ہمارا جواب یہ ہو کہ وہ جواب نہیں دیتے یا غیر سیاسی زبان کا استعمال کرتے ہیں،ان دونوں صورتوں میں اگر ہم نے انھیں وقت دیا تو عوامی ہمدردی ہمارے حق میں چلا جائے گا،عوام ہماری تنقید اور رائے کا احترام کر ینگے،اور وہ اس سیاسی تبدیلی اور مقصد میں ہمارے لئے مددگار ثابت ہونگے،اور عوام خود سے سوچنا شروع کردینگے کہ کیسے بہتر طریقے سے تبدیلی لایا جاسکتاہے؟ اب جس سیاسی تبدیلی کے عمل کو ہم نے عوامی بنایا تو ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے،اب اس مرحلے پر ہم خاموش ہوکر رہنمائی اور حالات کا مشاہدہ کرسکتے ہیں،آج صورت حال یہ ہے کہ جب ہم کسی مسئلے پر لکھے تو عوام اس پر بحث شروع کردیتے،دوسری صورت میں عوام خاموش رہ جاتا ہیں،کچھ نہیں کرتا، یہ اس بات کی نشاندہی کر رہا ہے کہ ہم ابھی تک اس تنقیدی عمل کو عوامی نہ بناسکے،اور وہ اس وجہ سے کہ ہماری ہنر مندی میں کئی کمی باقی رہ گئی ہیں جلد بازی یا کاہلی کا مظاہرہ کرکے شارکٹ راستے کا ہم نے سہارا لیاہوتنقیدی عمل میں ہمیں ذاتیات پر سے گریز کرنا چائیے،تعمیری تنقید دوسرے کے کام یا رویوں میں تبدیلی لانے کیلئے مددگار ثابت ہوتی ہے،اب مختلف موضوعات پر عوامی بحث و مباحثہ میں مجموعی مکالمہ بازی کو دیکھا جائے تو ہمیں اپنے تنقیدی عمل کے GAPS
صاف نظر آئینگے،گر آئینہ کا برا نہ مانے،خوشامدی مزاج نہ رکھے،اور ہم حقیقت پسند بنے ،جبکہ منفی طریقے سے تنقید کا ردعمل بھی منفی ہی ہوگانہ کہ مثبت.According to social science. تعمیری تنقید میں یہ بھی شامل ہو کہ اچھے کاموں میں ہم ان کی حوصلہ افزائی کرے،جب کہ آج تک اس پورے سیاسی عمل میں ایسا کوئی مثال ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا تاکہ عوام اسے ذاتیات و مخالفت برائے مخالفت نہ سمجھے!ہمیں ذاتیات اور مخالفت برائے مخالفت سے عظیم تر قومی مفاد کیلئے احتیاط کرنی چائیے، سلسلہ وار Blame game کے طریقے کو رواج نہیں دینا چائیے ،ورنہ ماضی قریب کے بلوچ سیاسی مقابلہ بازی ہمارے سامنے ہیں،جہاں دیواروں پر اس طرح لکھا گیا تھاکہCIA کے تین نشان وغیرہ کون کس کا ایجنٹ ؟ یا NAP نیپ کے میٹنگ میں ایک سیاسی شخصیت کی جانب سے شہیدسردار اکبر خان بگٹی کے ساتھ ضدو ذاتیات کا رویہ اور انھیں دیوار سے لگایا گیا ، نتیجہ آج سب کے سامنے ہم نے اس دور میں کیا کھویا؟ اور آج کیلئے کیا پایا؟ ما سوائے تباہی و پشیمانی کے! ہمارے حال کے فیصلے اور سیاسی عمل بلوچ کے مستقبل پر کیا مثبت و منفی اثرات ڈال سکتے ہی؟ اس کیلئے باریک بینی سے غوروفکر ،غیر جانبداری اور حقیقت پسندی سے ہمیں اپنے ماضی قریب میں ضرور جھانکنا ہوگا، انقلابی بن کر اپنا اور دوسرے کا احتساب خود کرنا چائیے،جبکہ ہماری مزاج وہی تربیت وہی غیر منظم انداز وہی اب ہمیں انتہائی محتاط طر یقے اپنے قدموں اور سیاسی رو یوں کو رکھنا چائیے، کیونکہ اب کی بار پنجابی دشمن نے بلوچ قوم اور وطن کے خلاف خطرناک منصوبہ بندی کو دیکھا جائے تو آج کی قومی تحریک ہماری قومی آزادی سے قومی بقاء کی جنگ بن چکی ہیں!اگر آج کے غلطیوں کو ساتھ لے کر جذباتی انداز میں اسی ڈگر پر چلتے رہے تو غیر شعوری طور پر ہم ان کے حلقہ احباب کو وسعت دینے کا وجہ بن سکتے ہیں، جو کسی قومی المیہ سے کم نہیں ہوگا،منصوبہ بندی کے بغیرسیاسی جہد ردعملی جہد عارضی اور غیر پائیدار ہوتے ہیں،ایک لوہا جس پر دس سال کا زنگ چھڑا ہو اسے صاف کرنے کیلئے بھی اتنا ہی عرصہ چائیے،اگر ہم نے جلد بازی اور غیر محتاط رویہ نہ چھوڑا تو اس کے ردعمل میں آکر ہمارے معاشرے میں باغی تو پیدا ہو سکتے ہیں،جو صرف بغاوت جانتے ہو اور کچھ نہیں کیونکہ ہم نے انھیں یہی سکھایا تھا،لیکن ہمارے اس ردعملی سیاسی رویے سے انقلابی ہر گز پیدا نہیں ہو سکتے
اب زرا سوچئے غوروفکر کے ساتھ کیونکہ یہ بلوچ بقاء کا معاملہ ہیں

یہ بھی پڑھیں

فیچرز