2014میں بلوچستان کے مختلف علاقوں سے 435بلوچوں کو لاپتہ کیا گیا اور 455لوگوں کی مسخ شدہ لاشیں ملی ہے،نصر اللہ بلوچ
کوئٹہ ( ہمگام نیوز)وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصراللہ بلوچ نے کہا ہے کہ 2014میں بلوچستان کے مختلف علاقوں سے 435بلوچوں کو لاپتہ کیا گیا اور 455لوگوں کی مسخ شدہ لاشیں ملی ہے یہ بات انہوںنے جمعرات کو کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہی انہوںنے کہاکہ 2014میں کئی بلوچ نوجوانوں کو لاپتہ کیا گیا جن میں سے 455کی مسخ شدہ لاشیں مل گئی جن میں سے 107مسخ شدہ لاشوں کی شناخت ہوگئی جو بلوچ تھے جبکہ 348لاشوں کی شناخت نہیں ہوسکی انہوںنے کہاکہ پہلے جو مسخ شدہ لاشیں ملتی تھی ان کے جیبوں میں پرچیاں ہوتی تھی اور چہرے بھی زیادہ مسخ نہیں ہوتے تھے جس سے ان کی شناخت ہوتی تھی مگر اب جو مسخ شدہ لاشیں مل رہی ہے ان کے چہروں کو مسخ کیا جاتا ہے ان پر تیزاب اور چونا ڈالا جاتا ہے اس سے ان کی شناخت نہیں ہوسکتی انہوںنے کہاکہ صوبائی سطح پر مسخ شدہ لاشوں کو رکھنے کیلئے کوئی انتظامات نہیں بی ایم سی کا مردہ خانہ بند ہے اور سول ہسپتال کوئٹہ کے مردہ خانے میں لاشوں کو رکھنے کیلئے کوئی خاص انتظامات نہیں مسخ شدہ لاشوں کو دو تین دن ہسپتال میں رکھ کر دفنایا جاتا ہے جس سے یہ بھی پتہ نہیں چلتا کہ لاش کس کی تھی یہ ایک اہم انسانی مسئلہ ہے ہم صوبائی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ مسخ شدہ لاشوں کے حوالے سے سول ہسپتال کوئٹہ میں سرد خانہ بنایا جائے جہاں لاشوں کو رکھنے کیلئے تمام سہولیات موجود ہوں اور کم از کم ایک مہینہ ان لاشوں کو سرد خانوں میں رکھا جائیں ایک ویب سائیٹ بنائی جائیں جن پر مسخ شدہ لاشوں کی ویڈیو جاری کی جائیں لاشوں کے ڈی این اے کرائے جائیں اور ان کو علیحدہ قبرستان میں دفنانے کے بعد قبروں پر نمبر بھی لگائے جائیں تاکہ لواحقین کو اپنے پیاروں کو پہچانے میں آسانی ہوں انہوںنے کہاکہ موجودہ برسر اقتدار سیاسی جماعتوں نے اقتدار میں آنے سے پہلے وعدے کئے تھے اقتدار میں آنے کے بعد لاپتہ افراد اور مسخ شدہ لاشوں کا مسئلہ حل کیا جائے گا مگر یہ اپنے وعدے بھول گئے پہلے تحفظ پاکستان آرڈیننس منظور کیا گیا اور اب فوجی عدالتوں کیلئے راستہ ہموار کررہی ہے ہم چیف جسٹس سپریم کورٹ سے اپیل کرتے ہیں کہ حکومت کے غیر آئینی اقدامات کا نوٹس لیا جائے انہوںنے کہاکہ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز غیر سیاسی تنظیم ہے اور ہم اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے آئینی اور پرامن جدوجہد کررہے ہیں لیکن مجھے میری تنظیم کے عہدیداروں اور لاپتہ افراد کے لواحقین کو دھمکیاں دی جارہی ہے اگر ہمیں کچھ ہوا تو اس کی ذمہ داری حکومت اور خفیہ اداروں پر عائد ہوگی ۔