شال ( ہمگام نیوز ) سانحہ مرگاپ بلاشبہ ایک قومی سانحہ ہے، لیکن شہداء کی قربانیوں نے نہ صرف دشمنوں کے عزائم کو ناکام بنایا بلکہ منحرفین کو بھی بے نقاب کیا۔ ان قربانیوں نے تحریک کو مزید جِلا بخشی اور نئی سمت عطا کی۔
بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم) کے چیئرمین، ڈاکٹر نسیم بلوچ نے شہدائے مرگاپ کی یاد میں منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی غلامی میں گزرے ہوئے 77 سالوں کے دوران، تین نسلیں ریاستی جبر و قبضے کا سامنا کرچکی ہیں۔ یہی قربانیاں باشعور، ثابت قدم اور نظریاتی وابستگی رکھنے والے سیاسی کارکنوں کو جنم دیتی ہیں۔
انھوں نے کہا سانحہ مرگاپ نے بلوچ قومی تحریک کو نئی توانائی عطا کی ہے، اور یہ حقیقت واضح ہوچکی ہے کہ شہداء کی قربانیوں نے دشمن اور منحرف عناصر کے ارادوں کو خاک میں ملا دیا ہے۔
مرکزی تقریب کے علاوہ، شہید راشد (مشکے۔آواران ھنکین) اور شہید انور ایڈووکیٹ (کیچ-گوادر ھنکین) کی طرف سے بھی شہدائے مرگاپ کی یاد میں تقریبات کا انعقاد کیا گیا۔ ان تقاریب میں بی این ایم کے چیئرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ کے ساتھ ساتھ جونیئر وائس چیئرمین بابل لطیف، سیکریٹری جنرل دل مراد بلوچ، سیکریٹری اطلاعات و ثقافت قاضی داد محمد ریحان، مرکزی فنانس سیکریٹری ناصر بلوچ، مرکزی کمیٹی کے رکن چیف اسلم بلوچ، سی سی رکن ماہ گنج بلوچ، تلار ناز اور ذیشان منان نے خطاب کیا۔
مقررین نے کہا کہ کچھ نمایاں شخصیات تحریک سے منحرف ہوکر بی این ڈی پی (بلوچستان نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی) جیسی نومولود جماعت کے ساتھ جا ملیں — ایک ایسی جماعت جو ریاستی سرپرستی میں بی اے پی (بلوچستان عوامی پارٹی) کی طرز پر راتوں رات وجود میں لائی گئی۔ شہید غلام محمد نے ان کے خلاف ڈٹ کر بلوچ قومی تحریک کا دفاع کیا۔ ان کی قربانی اور بے مثال جذبے نے ان کے ساتھیوں کو سودے بازی اور پسپائی سے روکے رکھا، ان کے دلوں سے خوف نکالا اور انھیں جدوجہد جاری رکھنے کا حوصلہ دیا۔
بی این ایم کے قائدین نے مزید کہا کہ شہداء نے نہ صرف بیرونی دشمن کے خلاف، بلکہ تنظیم کے اندر بھی ان عناصر کے خلاف آواز بلند کی جو بلوچ قومی مفادات کے منافی سرگرمیوں میں ملوث تھے۔ شہید غلام محمد نے اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر قوم کو یقین دلایا کہ وہ کسی انحراف کے نہیں، بلکہ منحرفین کے خلاف تحریک کو منظم کر رہے ہیں۔ ان کے اسے فیصلے نے تحریک اور قوم کے مستقبل کی سمت متعین کی۔
انھوں نے کہا کہ شہید غلام محمد نے بی این ایم کو اس لیے برقرار رکھا کہ منحرف عناصر بلوچ شناخت کے خاتمے کے لیے ریاستی شرائط پر کام کر رہے تھے۔ طبیب اصغر اور طبیب اکبر کے سودے اسی مقصد کے تحت ہوئے تھے، اور ان کے مقابلے میں بی این ایم کا وجود ہی بلوچ قومی شناخت اور بقا کی حفاظت کی علامت تھا۔ فدا احمد کو شہید کرکے انحراف کی راہ کو ہموار کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن غلام محمد نے فکرِ فدا پر عمل پیرا ہو کر تحریک آزادی کا واضح پیغام دیا۔
مقررین نے اس امر پر زور دیا کہ جو اقوام اپنی آزادی کی جدوجہد کا آغاز کرتی ہیں، وہ ایک دن ضرور کامیاب ہوتی ہیں۔ یہ ایک وقت طلب اور صبر آزما سفر ہے، لیکن اس کا انجام کامیابی ہی ہے۔ قیادت قربان ہوتی ہے، مگر تحریک کا سفر جاری رہتا ہے۔ شہداء کی قربانیوں کی بدولت بلوچ تحریک اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہے، اور ان کا فکر و فلسفہ ہماری رہنمائی کر رہا ہے۔
شہدائے مرگاپ کی یاد میں منعقدہ تقریب میں بی این ایم کی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کیا گیا اور کہا گیا کہ بی این ایم ہر شعبے میں پیش رفت کرتے ہوئے بلوچ قوم کی آزادی کی منزل کو قریب تر کر رہی ہے اور ایک مؤثر، ہمہ جہت کردار ادا کر رہی ہے۔