سرباز (ہمگام نیوز) ایرانی مقبوضہ بلوچستان کے شہر سرباز کے نصیرآباد میں قابض ایرانی خفیہ انٹیلیجنس فورسز نے ایک کمسن بلوچ بچے کو مبینہ طور پر تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد حراست میں لے لیا۔ گرفتار نوجوان کی شناخت صالح بہرامزہی ولد مولوی حبیبالرحمن کے نام سے ہوئی ہے، جو مقامی رہائشی بتایا گیا ہے۔
عینی شاہدین کے مطابق، صالح بدھ کی سہ پہر اپنے ہم عمر دوستوں کے ساتھ کھیل میں مصروف تھا کہ ایرانی انٹیلیجنس کے اہلکاروں نے علاقے میں داخل ہوکر اسے زبردستی گرفتار کیا۔ گرفتاری کے دوران مبینہ طور پر نہ صرف صالح کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا، بلکہ اس کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر فورسز کی گاڑی میں ڈال کر نامعلوم مقام کی جانب منتقل کر دیا گیا۔
خاندانی ذرائع کا کہنا ہے کہ فورسز نے بعد ازاں اطلاع دی کہ بچے کو راسک شہر منتقل کیا گیا ہے۔ اہل خانہ اور مقامی عمائدین کی جانب سے جب بچے کی بازیابی کے لیے رابطہ کیا گیا تو جواب دیا گیا کہ “وہ ہفتہ تک ہمارے پاس رہے گا “
یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ نومبر 2024 میں صالح کے بڑے بھائی قاسم بہرامزہی کو بھی راسک میں قابض ایرانی فورسز نے مبینہ طور پر قتل کر دیا تھا۔ اہل خانہ کے مطابق، ایک ہفتے تک لاش کی حوالگی اس شرط پر کی گئی تھی کہ واقعہ کو میڈیا پر نہ لایا جائے۔
مزید برآں، ایوب بہرامزہی، جو صالح کے چچا تھے، کو سال 2013 میں زاہدان کی مرکزی جیل میں دیگر 16 بلوچ قیدیوں کے ہمراہ اس وقت کے زاہدان کے پراسیکیوٹر محمد مرزیه کے حکم پر پھانسی دی گئی تھی۔
اہل علاقہ اور انسانی حقوق کے کارکنان اس واقعے کو بلوچ بچوں کے خلاف بڑھتی ہوئی ریاستی سختیوں کا حصہ قرار دے رہے ہیں، اور مطالبہ کر رہے ہیں کہ صالح بہرامزہی کو فوری طور پر رہا کیا جائے اور اس معاملے کی شفاف تحقیقات کی جائیں۔