نیویارک (ہمگام نیوز) ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) نے پیر کے روز سوڈان کی پیراملٹری ریپڈ سپورٹ فورسز (آر ایس ایف) اور فوج کے ساتھ جنگ آزما اتحادی ملیشیاؤں پر الزام لگایا ہے کہ انہوں نے جنوبی سوڈان میں وسیع پیمانے پر جنسی تشدد کا ارتکاب کیا ہے۔

یہ بین الاقوامی نگران اداروں کی تازہ ترین رپورٹ ہے جس میں سوڈان کی 20 ماہ کی جنگ کے دوران جنسی تشدد کا الزام لگایا گیا ہے جسے امریکہ نے دنیا کے بدترین انسانی بحران کی وجہ قرار دیا ہے۔

اپنی نئی رپورٹ میں ایچ آر ڈبلیو نے کہا کہ اس نے ستمبر 2023 سے لے کر اب تک درجنوں ایسے کیسز درج کیے ہیں جن میں سات سے 50 سال کی عمر کی خواتین اور لڑکیاں شامل ہیں جنہیں جنوبی کردفان ریاست میں جنسی تشدد بشمول اجتماعی آبروریزی اور جنسی غلامی کا نشانہ بنایا گیا۔

تازہ ترین تفصیلات نیویارک میں مقیم واچ ڈاگ کی گذشتہ ہفتے کی ایک علیحدہ رپورٹ کے بعد سامنے آئی ہیں جس میں زیادہ وسیع طور پر آر ایس ایف اور اس کی اتحادی عرب ملیشیاؤں پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے جنوبی کردفان ریاست میں خاص طور پر نسلی برادری نوبا کے شہریوں کے خلاف دسمبر 2023 سے مارچ 2024 تک متعدد خواتین سے جنسی بدسلوکی کا ارتکاب کیا۔

اس میں کہا گیا ہے کہ وسیع پیمانے پر ان حملوں کی “اطلاع نہیں دی گئی” اور یہ “جنگی جرائم” کے زمرے میں آتے تھے۔

جنوبی کردفان کے بعض حصے اور بلیو نیل ریاست کے بعض حصے سوڈان پیپلز لبریشن موومنٹ-نارتھ (ایس اپی ایل ایم – این) کے زیرِ قبضہ ہیں جو ایک باغی گروپ ہے۔

عبدالعزیز الحلو کی قیادت میں ایس پی ایل ایم – این کے ایک گروہ نے سوڈان کے دیگر باغیوں کے ہمراہ حکومت کے ساتھ 2020 کے امن معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا کیونکہ الحلو نے شرط کے طور پر ایک سیکولر ریاست کا مطالبہ کیا تھا۔

جنوبی کردفان کے کئی باشندے سوڈان کی عیسائی اقلیت کے رکن ہیں۔

الحلو نے اس وقت آر ایس ایف کے رہنما محمد حمدان دگلو کو مظالم سے جوڑتے ہوئے ان سے مذاکرات سے انکار کر دیا تھا۔

ایچ آر ڈبلیو نے کہا کہ اپریل 2023 میں نیم فوجی دستوں اور سوڈانی مسلح افواج کے درمیان جنگ شروع ہونے کے بعد سے ایس پی ایل ایم – این کی فوج اور آر ایس ایف دونوں کے ساتھ جنوبی کردفان کے بعض حصوں میں جھڑپ ہوئی ہے۔

اقوامِ متحدہ کے مطابق تنازعہ نے دسیوں ہزار لوگوں کی جانیں لے لی ہیں، 80 لاکھ سے زیادہ اندرونی طور پر بے گھر ہو چکے ہیں اور تیس لاکھ سے زیادہ دیگر افراد ہمسایہ ممالک میں تحفظ اور پناہ کی تلاش پر مجبور ہو گئے ہیں۔

ایچ آر ڈبلیو کی رپورٹ کے مطابق متأثرہ خواتین میں سے اکثر کو ان کے یا ہمسایوں کے گھروں میں اور اکثر کو خاندانوں کے سامنے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا جبکہ بعض کو اغوا کر کے غلامی کی حالت میں رکھا گیا۔

ایک بچ جانے والی 35 سالہ نوبا خاتون نے بتایا کہ چھے آر ایس ایف باغیوں نے ان کی اجتماعی عصمت دری کی تھی جو ان کے خاندانی احاطے میں گھس آئے اور ان کے شوہر اور بیٹے کو قتل کر دیا جب انہوں نے مداخلت کرنے کی کوشش کی۔

انہوں نے کہا، “وہ چھے کے چھے میری عصمت دری کرتے رہے۔”

بچ جانے والی ایک اور 18 سالہ خاتون نے بتایا کہ فروری میں 17 دیگر خواتین کے ساتھ انہیں ایک اڈے پر لے جایا گیا جہاں وہ 33 زیرِ حراست دیگر خواتین اور لڑکیوں میں شامل ہوئیں۔

ایچ آر ڈبلیو نے کہا، “باغی تین ماہ تک روزانہ کی بنیاد پر خواتین اور لڑکیوں کی عصمت دری کرتے اور مارتے پیٹتے رہے جن میں وہ 18 سالہ بچ جانے والی خاتون بھی شامل تھی اور یہ جرائم جنسی غلامی کے زمرے میں بھی آتے ہیں”۔

اس میں کہا گیا بعض اوقات اسیران کو ایک ساتھ زنجیروں میں بھی جکڑ دیا جاتا تھا۔

ایچ آر ڈبلیو نے اپنی رپورٹ میں کہا، “جنسی تشدد کی یہ کارروائیاں جو جنگی جرائم ہیں، شہریوں کے تحفظ اور انصاف کی فراہمی کے لیے بامعنی بین الاقوامی کارروائی کی فوری ضرورت پر زور دیتی ہیں۔”

اکتوبر میں سوڈان کے لیے اقوامِ متحدہ کے خودمختار بین الاقوامی تحقیقی مشن نے کہا کہ فریقین نے ایذا رسانی اور جنسی تشدد سمیت زیادتیوں کا ارتکاب کیا ہے۔ لیکن اس نے نیم فوجی دستوں پر خاص طور پر “وسیع پیمانے پر جنسی تشدد” کا الزام لگایا۔

مشن نے کہا کہ ان میں “اجتماعی زیادتی اور متأثرین کو ان حالات میں اغوا اور حراست میں لینا شامل ہے جو جنسی غلامی کے مترادف ہیں”۔

گذشتہ ہفتے اپنی ابتدائی رپورٹ میں ایچ آر ڈبلیو نے اقوامِ متحدہ اور افریقی یونین پر زور دیا کہ وہ “سوڈان میں شہریوں کے تحفظ ک

ے لیے فوری طور پر ایک مشن تعینات کریں۔”