شال (ہمگام نیوز) ہم آپ کے مشکور ہیں کہ آپ نے ہماری آواز سننے کے لیے اپنا وقت نکالا۔ آج ہم یہاں صرف ایک فرد کی بازیابی کے لیے نہیں، بلکہ انسانیت، انصاف اور آئینی حق کی بحالی کے لیے حاضر ہوئے ہیں۔ ہم، غنی بلوچ کے اہلِ خانہ، آج یہاں دل گرفتہ حالت میں آپ کے سامنے حاضر ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا غنی بلوچ، براہوی لٹریچر میں ایم فل اسکالر، ریسرچر ، ٹرانسلیٹر اور پبلشر ہیں۔ایک پر امن سیاسی کارکن کی حیثیت سے ہمیشہ تعلیم، تحقیق اور شعور کی بیداری انکی زندگی کا مقصد اور محور رہا ہے۔ انہیں 25 مئی 2025 کی رات کوئٹہ سے کراچی جاتے ہوئے خضدار کے قریب جبری طور پر لاپتہ کیاگیا۔ انکی جبری گمشدگی بلوچستان کے تمام ادیب، محقق ، پی ایچ ڈی سکالرز، صحافی، پروفیسرز سمیت ادب، علم و تحقیق کے شعبوں کی شخصیات کے لیئے الارمنگ ہوچکی ہے۔
چشم دید گواہاں کے مطابق جب بس خضدار میں قادری ہوٹل کے قریب پہنچی تو وہاں پہلے سے ہی ناکہ لگایا گیا تھا اور کئی بسوں کو روک کر انکی تلاشی جاری تھی، جس بس میں رائیٹر غنی بلوچ سوار تھے، اسے بھی روکا گیا، اورفرنٹیئر کور کے اہلکاروں نے غنی بلوچ کو بغیر کسی وارنٹ یا قانونی جواز کے زبردستی اغوا کر لیا۔ اس دن سے آج تک وہ جبری گمشدگی کا شکار ہیں، اور انہیں تاحال کسی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا ہے۔ نہ کوئی وارنٹ، نہ کوئی قانونی اطلاع کے بلوچ قوم کے ایک محقق کو نا معلوم جگہ پر منتقل کیا گیا ہے اور ہمیں آج تک ان سے انکی حالت کے بارے میں آگاہ نہیں کیا جا رہا۔
انہوں نے کہا ہم اس جبری گمشدگی کے خلاف انصاف کے تمام اداروں کے دروازوں پر دستک دے رہے ہیں۔ غنی بلوچ کی بازیابی کے لیئے بلوچستان ہائی کورٹ سے بھی رجوع کر لیا گیا ہے۔ ہم غنی بلوچ کے اہلِ خانہ انتہائی اذیت، بے یقینی، اور انکی صحت و سلامتی کے حوالے سے شدید اندیشوں میں مبتلا ہیں۔
انہوں نے کہا جیسا کہ بلوچستان میں سینکڑوں لوگوں کو جبری گمشدگی کا شکار بنا دیا گیا ہے۔ بلوچ قوم کے دیگر لواحقین کی طرح ہمیں اور ہمارے خاندان کو بھی اجتماعی سزا دی جا رہی ہے۔ غنی بلوچ ایک انتہائی سنجیدہ اور فہمیدہ شخصیت ہیں۔ وہ ایک پرامن سیاسی کارکن، علم دوست شخصیت ہیں اور ماضی میں بھی بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے مرکزی جنرل سیکریٹری اور وائس چئیرمین بھی رہ چکے ہیں۔ انھوں نے اپنی ان ذمہ داریوں کو طلبہ طالبات کے حقوق کے لیئے لمبی جدوجہد بھی کی ہے۔ یونیورسٹی کی ذمہ دار شخصیات بھی غنی بلوچ کے اخلاص انکی ایمان داری کے معترف ہیں۔
انہوں نے کہا ہم ریاستِ پاکستان اور تمام متعلقہ اداروں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ غنی بلوچ کو فی الفور عدالت میں پیش کیا جائے یا اگر ان پر کوئی الزام نہیں تو انہیں فوری طور پر رہا کیا جائے۔ جبری گمشدگی کا عمل آئین پاکستان، انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے اور اخلاقی اصولوں کے سراسر منافی ہے، جسے فوری طور پر ختم کیا جانا چاہیے۔ ہم یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمیں غنی بلوچ کی موجودہ حالت اور مقام سے فوری طور پر آگاہ کیا جائے تاکہ ہمارے اندیشوں اور ذہنی اذیت کا ازالہ ہو سکے۔
انہوں نے کہا اس کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے تمام اداروں، سیاسی جماعتوں، طلبہ تنظیموں، اور لٹریری اکیڈمیز، دانشوروں، ادیب، شعراء اور تمام اساتذہ کرام سے اپیل کرتے ہیں، وہ اس ظلم اور جبر کے خلاف ایک آواز بنیں، اور ایک ادبی، ایم فل سکالر اور علمی شخصیت کے لیئے آواز اٹھائیں، کیونکہ اگر آج صحافیوں اور سول سوسائٹیز سمیت اس جبر کے خلاف موثر آواز نہیں اٹھائی گئی تو کل کیا پتہ کسی دانشور، ادیب اور شعراء، اساتذہ سمیت کوئی فکری اور تخلیقی شخصیت محفوظ نہیں ہوگی۔