استنبول (ہمگام نیوز)ترکیہ کے صدر طیب ایردوان نے انتباہ کیا ہے کہ کرد جنگجو ہتھیار پھینک دیں یا پھر دفن ہونے کے لیے تیار ہو جائیں۔ ان کا یہ سخت ترین بیان بشار الاسد رجیم کے خاتمے کے فوری بعد سے کرد جنگجوؤں کے ساتھ ترکیہ کی حمایت یافتہ فورسز کے درمیان جاری جھڑپوں کے تناظر میں سامنے آیا ہے۔

شام کے ترکیہ سے جڑے سرحدی علاقے میں موجود کرد جنگجوؤں کو امریکہ کی حمایت ہے اور امریکہ ان کرد جنگجوؤں کو خطے میں داعش کے خلاف اپنے اثاثے کے طور پر قرار دیتا ہے۔ جبکہ نیٹو کا رکن ملک ترکیہ ان کردوں کو باضابطہ دہشت گرد قرار دیتا ہے۔

بشار رجیم کے بعد ترکیہ مسلسل اس امر پر زور دے رہا ہے کہ کرد جنگجوؤں کو ختم کر دیا جائے اور ان کا شام کے مستقبل میں کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے۔ بشار الاسد کے اقتدار کے خاتمے کے بعد سے کرد جنگجو اپنے آپ کو پسپا محسوس کر رہے ہیں۔ کیونکہ دمشق میں برسر اقتدار آنے والی نئی قیادت ان سے قربت کی حامل نہیں ہے۔

ایردوان نے اپنی جماعت کے قانون سازوں سے بدھ کے روز خطاب کرتے ہوئے کہا ‘ان علیحدگی پسند قاتلوں کو یا اپنے ہتھیاروں کو الوداع کہنا پڑے گا یا پھر انہیں شام کی سرزمین میں خود دفن ہونا ہوگا۔ ہم دہشت گرد تنظیموں کو صاف کر دیں گے۔ کیونکہ یہ ہمارے اور ہمارے کرد بھائیوں کے درمیان خون کی دیوار کھڑی کیے ہوئے ہیں۔’

ترکیہ کا مؤقف ہے کہ کردوں کی جماعت ‘وائے پی جی’ سے وابستہ جنگجو ہی ‘سیرین ڈیموکریٹک فورس’ کے اہم عناصر ہیں اور یہ غیرقانونی ‘کردستان ورکرز پارٹی’ جو کہ ایک مسلح گروہ تھا کا حصہ ہیں۔ جو 1984 سے ترک ریاست کے خلاف مسلح کارروائیاں کر رہی ہے۔

واضح رہے ‘پی کے کے’ کو ترکیہ کے علاوہ امریکہ و یورپی یونین نے بھی دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے اور اب ترکیہ کا امریکہ سے مطالبہ ہے کہ وہ اور اس کے اتحادی ‘وائے پی جی’ کی حمایت ختم کریں۔

اس سے پہلے ترک وزارت دفاع نے کہا ہے کہ اس نے ‘وائے پی جی’ اور ‘پی کے کے’ کے 21 جنگجوؤں کو شمالی شام اور عراق میں ہلاک کیا ہے۔

بین الاقوامی خبر رساں ادارے ‘روئٹرز’ کو ‘سیرین ڈیموکریٹک فورس’ کے کمانڈر مظلوم عابدی نے انٹرویو دیتے ہوئے تسلیم کیا ہے کہ یہ پہلا موقع ہے کہ ‘پی کے کے’ کے جنگجو بھی شام میں موجود ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ان جنگجوؤں نے داعش کے خلاف جنگ میں مدد کی ہے اور یہ صرف اسی صورت واپس جا سکیں گے کہ ترکیہ کے ساتھ جنگ بندی ہو جائے۔ تاہم مظلوم عبدی نے ‘پی کے کے’ کے ساتھ کسی باضابطہ تنظیمی اتحاد کی نفی کی۔

یاد رہے ترکیہ حلب میں جلد اپنا قونصل خانہ کھولنے والا ہے اور اگلے سال کے موسم گرما تک ترکیہ اور شام کی سرحد پر آمد و رفت کو بھی بڑھانا چاہتا ہے۔ ترکیہ میں شام کے دسیوں لاکھ پناہ گزین اس وقت موجود ہیں۔