بیروت ( مانیٹرنگ ڈیسک ) 2011 میں شروع ہونے والی شامی جنگ اور اس میں حزب اللہ ملیشیا کی مداخلت کو کئی سال گزر جانے کے باوجود شام میں اب بھی ایک لائف لائن موجود ہے جو حزب اللہ کو زندہ رکھنے کے لیے اسے ہتھیار اور سازوسامان فراہم کرتی ہے۔ ایران اپنے زیر کفالت منصوبوں میں حزب اللہ کو ایک ’’ عقبی باغ‘‘ کی حیثیت سے تحفظ فراہم کرتا آرہا ہے۔
حزب اللہ شام میں اپنے جنگجوؤں کی تعداد کا باضابطہ طور پر اعلان نہیں کرتی۔ تجزیہ کاروں اور ماہرین کے مطابق عمومی مشن کے معیار کے علاوہ کسی مخصوص مشن کے لیے تفویض کردہ عناصر کی بنیاد پر جنگجوؤ ں کی تعداد میں روز بروز تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ شام میں ایرانی پاسداران انقلاب کے بیس ہزار سے زائد افراد حلب، دیر الزور اور الشام میں مختلف اڈوں میں تقسیم ہیں۔ باخبر ذرائع نے ’’العربیہ ڈاٹ نیٹ‘‘ کو آگاہ کیا ہے کہ آج حزب اللہ کے ارکان کی تعداد اڑھائی ہزار سے 3 ہزار کے درمیان ہے۔ یہ ارکان القصیر، قارا، الشام اور البادیہ میں مقرر کردہ مقامات میں تقسیم ہیں۔
لیڈروں کی معزولی
ذرائع نے یہ بھی اطلاع دی ہے کہ شام میں حزب اللہ کے زیادہ تر ارکان آج موبلائزیشن یونٹ کے نوجوان طبقے سے ہیں۔ یہ ارکان زیادہ تر اعلیٰ فوجی عہدیداروں اور کیڈروں کو نشانہ بنائے جانے کے خوف سے نقل و حرکت کرتے رہتے ہیں۔ اس سے قبل بڑے عہدیداروں اور عسکری افراد جیسے عماد مغنیہ اور مصطفی بد ر الدین کو عہدوں سے معزول کردیا گیا تھا۔ اس کے بعد عہدیدارو ں کے درمیان بھی ایک جنگ شروع ہوگئی تھی جس کے نتائج حزب اللہ اب تک بھگت ر ہی ہے۔
ذرائع نے مزید نشاندہی کی کہ پارٹی کے کچھ سینئر اہلکار صرف ایرانی ملیشیا کے ارکان کو لڑنے کے لیے تربیت دینے کی نگرانی کر رہے ہیں۔ یہ و ہ اہلکار ہیں جو شام میں داخلے کے پہلے مرحلے میں لڑائیوں میں ذاتی طور پر حصہ لے رہے تھے۔
سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے ڈائریکٹر رامی عبدالرحمان نے ’’العربیہ ڈاٹ نیٹ‘‘ کو بتایا کہ شام میں حزب اللہ کی تعیناتی کا نقشہ البوکمال سے شروع ہو کر القصیر تک اور جنوبی دمشق سے حلب اور اس کے دیہی علاقے تک ہے۔ تاہم انہوں نے کہا ہے کہ شام میں حزب اللہ کی موجودگی ماضی کی طرح اب عام عناصر تک محدود نہیں ہے بلکہ فوجی رہنماؤں اور اہلکاروں تک محدود ہوگئی ہے۔ خاص طور پر جنوبی دمشق اور حلب کے دیہی علاقوں میں حزب اللہ صرف ایران نواز فورسز کی نگرانی کرتی ہے۔
ملیشیا کی بھرتی
رامی عبدالرحمان نے زور دے کر کہاکہ حزب اللہ شام میں ایرانی پاسداران انقلاب کا کردار ادا کر رہی ہے اور وہ فقیہ کی سرپرستی کے ساتھ مکمل وفاداری کو یقینی بنانے کے بعد ایران کے وفادار ملیشیا کے ارکان کی بھرتی اور تربیت کی نگرانی کرتی ہے۔
فوجی ماہر ریٹائرڈ بریگیڈیئر جنرل خلیل الحلو نے ’’العربیہ ڈاٹ نیٹ‘‘ کو بتایا ہے کہ شام میں حزب اللہ کا کردار ایرانی پاسداران انقلاب کے کردار کی تکمیل ہے اور ان کا سٹریٹجک مشن شامی حکومت کی حمایت اور شامی حکومت کو زندہ رکھنا ہے۔ خاص طور پر چونکہ یوکرین میں جنگ کے نتیجے میں شام میں روسی موجودگی کم ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا حزب اللہ کی موجودگی اب صرف فوجی کارروائیوں تک محدود نہیں ہے بلکہ سماجی موجودگی کو بڑھانے کے لیے بھی ہے تاکہ یہ شام میں مقامی ایرانی ملیشیاؤں کے “کلون” کا کردار ادا کرے اور پاسداران انقلاب کے ساتھ تعاون اور یکجہتی کے ساتھ کام کرتی رہے۔
انہوں نے کہا حزب اللہ کی یہ موجودگی ایران کے لیے ضروری ہو گئی ہے کیونکہ یہ اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے شامیوں کے ساتھ ایک ثقافتی ربط قائم کرتا ہے۔ اس کے علاوہ حزب اللہ ایران کے ساتھ دیگر ملیشیاؤں جیسے افغان ملیشیا کو جذب کرنے کا کام بھی کرتی ہے۔
سیکورٹی یونٹس
شام میں حزب اللہ کے ارکان پارٹی کے اندر سیکورٹی یونٹس کے اندر کام کرتے ہیں جن میں سے ہر ایک کا ایک مخصوص کام ہوتا ہے۔ اسی تناظر میں باخبر ذرائع نے بتایا کہ شام میں حزب اللہ کی سب سے بڑی موجودگی دو یونٹوں کی صورت میں ہے۔ ایک یونٹ “9000” ہے جو شام میں حفاظت اور نقل و حمل کے یونٹ کے طور پر جانا جاتا ہے ۔ دوسرا یونٹ “8000” ہے جو جنگجو یونٹ کے طور پر معروف ہے۔ اس کے علاوہ ایک یونٹ ’’ 4100‘‘ بھی ہے جو مداخلت یونٹ کہلاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک یونٹ ’’ 4400 ‘‘ ہے جو ٹرانسپورٹ یونٹ کا کام کرتا ہے۔ اس یونٹ کا کام فوجی ساز و سامان اور گاڑیوں کی نقل و حمل ہے۔
ڈالروں میں تنخواہ
ایک ایسے وقت میں جب ڈالر کا مسئلہ پورے لبنانی تانے بانے پر جھلک رہا ہے ۔ جس کی وجہ سے ڈالر میں تنخواہ وصول کرنے والے خوش قسمت لبنانیوں اور لبنانی پاؤنڈ میں تنخواہ وصول کرنے والوں خاص طور پر فوجیوں اور افسروں کے درمیان بہت زیادہ فرق پیدا ہو گیا تھا۔ 2019 کے موسم خزاں کے بعد سے موجود مالی اور اقتصادی بحران حزب اللہ اللہ کے لیے ایک نعمت بن کر سامنے آیا ہے۔ حزب اللہ کے ارکان کی ڈالروں میں تنخواہوں کی وجہ سے اس کے عہدیدار لبنانی فوج میں ایک ایک اعلیٰ عہدے پر فائز عہدیدار سے بھی بھی کئی گنا زیادہ تنخواہ وصول کر رہے ہیں۔ حزب اللہ میں تنخواہ کی قدر کا تعین تین عوامل کے مطابق کیا جاتا ہے۔ یہ عوامل سنیارٹی یعنی تجربہ، کام کی نوعیت اور تعلیمی سطح ہے ۔
باخبر ذرائع نے ’’ العربیہ ڈاٹ نیٹ‘‘ سے گفتگو میں بتایا کہ حزب اللہ کے ارکان کی تنخواہ ایک عام رکن کی بنیادی تنخواہ کے طور پر 500 ڈالر سے شروع ہوتی ہے۔ ایک افسر کے طور پر یہ تنخواہ 1500 ڈالر تک چلی جاتی ہے۔ یونیورسٹی کے ڈگری ہولڈرز جو انتظامی صلاحیت میں کام کرتے ہیں ان کی تنخواہ 700 سے 1000 ڈالر کے درمیان ہے۔