سه شنبه, اکتوبر 8, 2024
Homeآرٹیکلزشہیدملک نوراحمد قمبرانی۔۔۔ بلوچ تحریک کی مستقل مزاجی کا بہترین حوالہ:تحریر:اعظم بلوچ...

شہیدملک نوراحمد قمبرانی۔۔۔ بلوچ تحریک کی مستقل مزاجی کا بہترین حوالہ:تحریر:اعظم بلوچ

دنیا کی بات کروں تو بے شمار لو گ معتبر ٹھہریں گے ‘دنیا کے کسی براعظم کا ذکر کروں تو بھی شمار کرنا ممکن نہ ہوگا۔صرف انسانی حقوق کی تحریکوں کی بات کروں تو معتبر شخصیات کا انبار ہوگا‘خطوں کی بات کروں تو ممکن ہے کہ شخصیات کا کردار آپس میں گڈمڈ ہوجائیں ۔۔۔میں بلوچستان کی بات کروں گا‘بلوچ کی بات کرونگا‘یہاں شخصیات مختلف ہوسکتی ہیں ‘ادوار مختلف ہوسکتے ہیں‘تحریک سے جڑی تنظیموں کے نام مختلف ہوسکتے ہیں لیکن فکر ایک ہے ‘آزادی کی تحریک ایک ہے ‘نظریہ ایک ہے‘سب سے بڑھ کر کردار ایک ہے۔فکر ایک ہے تو یقیناً کردار ایک ہے ‘شخصیات مختلف ہوسکتی ہیں ‘لیکن ان میں رشتہ ورابطہ اور تعلق ایک ہے‘فکری رشتہ فکر تعلق اور فکری ہم آہنگی اور فکری عمل کا حسین امتزاج کے کئی ایک خوبصورت حوالے ہوسکتے ہیں‘بلوچستان بہت وسیع وعریض ہے‘مختلف شخضیات کے ہاں فکری وعملی تعلق کے حسین امتزاج کے کئی ایک کردار ہونگے لیکن میں نے جو حسین امتزاج دیکھا وہ میرے لئے بلوچ نیشنلزم کابہترین حوالہ ہے۔۔۔نواب خیر بخش مری سے فکری اور عملی ہم آہنگی کا حسین امتزاج ملک نوراحمد قمبرانی(شہید) کومیں نے پہلی دفعہ 2006میں دیکھا جب وہ اپنے ہدہ جیل میں گرفتار بیٹے اوران کے ساتھیوں سے ملنے آئے تھے۔وہ اپنے بیٹے اوان کے ساتھیوں کو ڈانٹنے نہیں آئے تھے کہ انہوں نے سرزمین کی دفاع میں مزاحمت کے نام پر گرفتار تھے ‘وہ اپنے بیٹے اوران کے ساتھیوں کی دلجوئی کیلئے آئے تھے‘حوصلہ افزائی کیلئے آئے تھے۔ملک اپنے اندر ایک پختہ فکررکھتے تھے‘مجھے جیل کے اندر قیدیوں سے ملاقات کی جگہ پر دیکھا اور تعارف کرنے پر مجھے گلے لگایااور کہا کہ میں ان نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کیلئے آیاہوں‘وہ ہمہ وقت جہد کارتھے‘طبعیت میں انتہائی نرم دل اور نرم مزاج تھے لیکن جس قدر وہ اپنی طبیعت کے حوالے سے نرم مزاج تھے اس کے برعکس فکری حوالے سے سخت اور پختہ تھے۔کہیں صعوبتوں کوبرداشت کیا۔پہلی دفعہ جب ہم جیسے کارکنوں کو1999 میں ایک بار پھر سے ’’سرمچاروں ‘‘ کا نام سننے کو ملا تو جسٹس نوازمری کے قتل کیس میں نواب خیر بخش مری کو گرفتار کیاگیا‘ان کی گرفتاری کے ساتھ ہی ملک نوراحمد قمبرانی بھی گرفتار کرلئے گئے ۔نواب مری کے قریبی ساتھی ہونے کے ناطے اس سلسلے میں ان کو بھی گرفتارکرکے جسٹس نوازقتل کے بارے میں تفتیش کی گئی ۔

ملک نوراحمد قمبرانی سے ہدہ جیل میں ملاقات کے بعد ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا۔ ایک ملاقات میں انہوں نے کہا کہ یہ بتایاجائے کہ تحریک کا آغاز ہونے پر بلوچ قوم کا کیا ردعمل ہے ؟عام بلوچ اس جنگ کیلئے تیارنظرآتے ہیں یا نہیں ؟کہیں وہ وقتی مسائل نوکری اور چھوٹے موٹے کاروبار کے جھانسے میں تو نہیں پڑے؟بعد میں خودہی انہوں نے اس سلسلے میں کہا کہ اول تو یہ ہے کہ لوگوں کا ردعمل اچھا ہوگا کیونکہ وہ اس جدوجہد کا لامحالہ تصور رکھتے ہیں ‘اور شروع میں تحریک ان لوگوں کی طرف سے شروع ہوتی ہے جو اس سے فکری طورپر پختگی کیساتھ جڑے ہوئے ہیں ‘بعد میں یہ لوگ آتے جائیں گے ‘اور اب تک کا پورے بلوچستان میں عوامی ردعمل حوصلہ افزاء ہے ۔ملک نوراحمد قمبرانی کل وقتی جہد کارتھے ‘وہ نواب مری سے اس وقت سے فکری تعلق رکھتے تھے جب ایوب خان کی آمریت قائم ہوگئی تھی ‘ملک نوراحمد قمبرانی نے کہا کہ نواب مری شروع سے ہی پارلیمانی جدوجہد سے نالاں نظرآتے تھے ‘گو کہ نیپ کے ساتھیوں کیساتھ رہے لیکن وہ اپنی گفتگو میں اپنی بیزاری کا ذکر کرتے رہتے تھے ۔خود نواب مری نے اپنے نیپ کیساتھ وابستگی کو اپنی نادانی گردانتے ہیں ۔چونکہ مسلح جدوجہد کا تصور پہلے سے موجودتھا‘آغا عبدالکریم احمد زئی کی مزاحمت کا نواب مری بارہا حوالہ دیتے رہے ہیں ۔وہ کہتے تھے کہ آغا کریم کی جدوجہد مثبت اقدام تھا جس نے بلوچ آزادی کے نظریئے کو پختہ کیالہٰذا نواب مری گوکہ نیپ کیساتھ رہے لیکن وہ مزاحمت پسند رہے ہیں اوران کے ملک نوراحمد قمبرانی جیسے ساتھی اس وقت سے ان کی فکری رجحانات کے حامی تھے ۔ملک نوراحمد قمبرانی اپنے فکری رجحانات کااظہار کرتے ہوئے کہتے تھے کہ نیپ کے ساتھیوں نے اپنی کوششیں کیں‘حکومت بھی بنا لی ‘ضیاء الحق جیسے آمر سے بات بھی کرلی ۔کچھ حاصل نہ ہوا‘اور جب کوئی کثیر آبادی اور اپنی مضبوط فوج کیساتھ کسی پر قابض ہو تو اسے بات چیت کیساتھ کیسے ختم کیاجاسکتا ہے ‘وہ اس کے لئے کئی انداز سے جواز گھڑتا ہے ‘کبھی مسلمان ہونے کے ناطے ‘کبھی ایک خطہ ہونے کے ناطے ‘لیکن وہ بلوچ کی آزاد ی کا قطعی احترام نہیں کرتا ‘وہ بس اپنے قبضے کو جواز دیتا رہتا ہے‘اس کے سامنے پارلیمنٹ جیسے ادارے اور پرامن جدوجہد کے ذرائع بے سود ہیں ۔تب ہی ملک نوراحمد قمبرانی روز اول سے ہی نواب مری کے ہم خیال رہے اور نیپ کے اندر رہ کر بھی نواب مری کے ساتھی رہے ‘بلکہ میں نے جو چیز ملک نوراحمد قمبرانی کی بابا مری سے تعلق کے حوالے سے پایا وہ ان کی بابامری سے روحانی وابستگی بھی نظرآتی تھی ۔ملک نوراحمد قمبرانی اور حق توار کے دیگر ساتھیوں میں بھی میں نے یہ بات نوٹ کی ہے کہ وہ فکری طورپر تو مری کیساتھ جڑے تھے لیکن دوسری طرف روحانیت کا عنصر بھی نظرآتاتھا۔ممکن ہے کہ ایسی شخصیات فکری کیساتھ ساتھ روحانی اثرات بھی رکھتے ہوں۔ نواب مری افغانستان چلے گئے ‘مری قبیلہ ودیگر قبائل کے لوگ بھی ساتھ تھے ۔بلوچستان میں نواب مری جیسامضبوط موقف عوامی سطح پر منظر سے ہٹتا گیا‘بی این وائی ایم وبلوچ اتحادیں بنیں۔یہ تاثر عام ہوا کہ اب بلوچستان کی سیاست پہاڑوں سے شہرکی گلیوں میں آچکی ہے ‘جدید دور اور جدید دور کے نئے تقاضوں کے نعرے لگے ‘اخترمینگل ‘ڈاکٹرحئی‘ڈاکٹرمالک بلوچ جیسے لوگ سامنے آئے ۔ایسا لگتا تھاکہ جنگوں پر مبنی کوئی فلم چل رہی ہوجہاں بلوچ نے اپنی آخری جنگ لڑی ہو اور اس میں اسے شکست ہوگئی ہو اور فاتح بندر بانٹ کررہاہو‘زمین پر لاشیں بکھری پڑی ہوں‘زخمی زخموں سے چورچورہوکر بس پڑے ہوں‘فاتح لشکر ایک ایک لاش کو اپنے نیزوں سے اوپر نیچے کرکے جائزہ لے رہے ہوں‘قیمتی اشیاء یکجاکرکے ان کو تقسیم کرنے کا اہتما م کررہے ہوں‘شکست خوردہ لوگ بے بسی کی تصویر بنے رہے ہوں اور جو لوگ بچ نکلے ہوں وہ پیچھے موڑ کر بھی نہ دیکھتے ہوں اوردور سے کبھی کبھی آرزومندانہ نگائیں ڈال کر اپنے عوام کیساتھ غلاموں جیساسلوک دیکھ کر کچھ بھی نہ کرپانے کی سکت نہ رکھتے ہوں اورآہیں بھرتے رہے ہوں۔ یہاں فاتح سے زیادہ غلام قوم کے وہ طبقے تیزی سے آگے آگئے ہوں جو آزادی اور مسلح راستے کے مخالف ہوں۔گویا ان جیسے طبقوں کے ہاں جشن کا سماں تھا۔قیادت کا خلا کہہ کر اس کو اخترمینگل اور حئی سے پر کرنے کی کوشش کی گئی ۔جنگ میں دوقدم پیچھے ہٹنے کو یہ نادان شکست سمجھنے لگے ‘فکری ناپختگی تھی یا پھر موقع پرستی تھی ‘بہر حال یہ تاثر عوامی سطح پر عام ضرور ہوا کہ نواب خیر بخش اوراس کے ساتھی یہ جنگ ہار چکے ہیں اور اب کا زمانہ گیا‘اب نئی سیاست نے اخترمینگل اور حئی کی قیادت میں جنم لے چکا ہے ۔لوگ نوجوان قیادت کی بات کرنے لگے ‘گویا سیاست تجربہ فکر اور پختگی سے زیادہ شوبز ٹھہر گیاجہاں خوبصورت اور توانا چہرہ ہی میدان میں ٹھہرسکتا ہو۔بی ایس اوکی غیر مسلح رجحان رکھنے والا طبقہ آگے آگیا‘ووٹ الیکشن کاایسا دوردورہ شروع ہوا کہ بلوچستان کی آزادی کے لئے پہاڑوں میں بہنے والے خون کو فراموش کردیاگیا تھا
۔بی ایس او کے اس غیر مسلح رجحان رکھنے والے پارلیمنٹ پرست طبقے نے تاثر عام کیا کہ مری اپنے لشکر کیساتھ جنگ ہار چکاہے ۔دوسری طرف نواب مری اپنے لشکر کیساتھ افغانستان میں موجودرہے ‘باقی ماندہ دوست بدستور بلوچستان میں رہے لیکن نہ تو پارلیمنٹ پرستوں کے نعروں سے مرعوب ہوئے اور نہ ہی نوجوان قیادت اور پارلیمنٹ کے پرفریب چکروں میں آئے بلکہ خاموشی سے اپنی فکر کو جاری رکھا۔نواب مری سے فکری تعلق قائم رہا اور شال وبلوچستان بھرمیں پھیلے نواب مری کے یہ فکری لوگ انتظار میں رہے۔فکری طورپر ایسے مضبوط جیسے کہ کہیں کوئی طوفان بدمست ہاتھی کی طرح آئے اور سب کچھ اکھاڑ کر لے
(2)
جائے بس ایک آشیانہ برقرار رہے جو بظاہر تو کمزورلیکن اندر سے اس کے اعضاء انتہائی مضبوطی کیساتھ جڑے ہوں۔یہ فکرکی طاقت تھی جہاں ملک نوراحمد قمبرانی اورنواب مری کے دیگر ساتھی ایسے دورمیں جہاں زمانہ بدلنے کے شادیانے بجائے جاتے رہے ہوں ایسے جیسا کہ فوکویاما کی مانند تاریخ کے خاتمے کا اعلان کیا گیا۔لیکن وہی پر فکری مضبوطی کا جومظاہرہ بلوچستان میں ہوا وہ عین تحریک آزادی کے ہاں دنیا کے کسی اور خطے میں ہواہوگا‘اور ہونا چاہئے۔بلوچستان میں فکرمری کوآگے بڑھانے والے ملک نوراحمد قمبرانی وان کے دیگر ساتھی اپنی فکرکیساتھ کمٹڈ رہے۔
ملک نوراحمد قمبرانی سریاب کے ان لوگوں میں شمار ہوتے ہیں جو سریاب میں زرعی زمین رکھتے تھے ‘زمینداری واجبی سی ہے‘زمین بنجر پڑی ہے‘ایک طرف آس پاس کے لوگ اپنی زمینوں کو آباد
کرنے میں جت گئے‘کمرشلزم آگیا تھا‘سریاب کی زرعی زمینیں یا توٹیوب ویلوں کی بھرمارہوئی۔یاتوزمینیں فروخت ہوتی گئیں یا پھرکالونیاں بننے لگیں یا پھر ٹیوب ویل لگ گئے لیکن ملک کی زمینداری واجبی سی رہی۔یہ بات مشہور ہوگئی ہے کہ لوگ سریاب میں زمینیں بیچ کر بڑی بڑی گاڑیوں میں سواری کرنے لگے‘جس کی بدولت آج سریاب افغان مہاجرین کا مضبوط گڑھ بن چکا ہے ۔جو پارلیمنٹ پرستوں کابھی خوب منہ چڑھاتے ہیں لیکن ملک نوراحمد قمبرانی ایوب خان کے دور سے شہادت کے لمحے تک سائیکل پر ہی رہے۔زمینداری کیوں واجبی سی رہی کیونکہ ساری توجہ فکرمری پر مرکوز رہی۔انگور کی فصل سنگتوں میں تقسیم ہوتی رہی۔زندگی گویا تحریک کیلئے وقف رہی۔سادگی کی ایک مثال تھے۔ جہاں فکری مباحثے ہوتے‘ملک اپنی سائیکل پر پہنچ جاتے‘اور جب نواب خیر بخش مری افغانستان سے واپس آئے تو گویا فکری حلقہ مزید مضبوط ہوگیا۔ملک اوران کی سنگتوں کی فکری امیدیں اور کوششیں رنگ لائی تھیں‘بابا کوئٹہ میں موجود تھے‘شکست کے شادیانے بجانے والے بھی مری کے استقبال کیلئے پہنچ گئے تھے ۔دودن تک ائیر پورٹ پر ہارے ہوئے جنرل (مری ) کا بلوچ قوم کے جمع غفیر نے راہ تکی ۔کون تھا جس نے شکست کا لقب پانے کے باوجود بابا کی فکر کوتھامے رکھا۔اور جب بابا واپس آنے لگے تو ملک نوراحمد قمبرانی اور ساتھیوں کی فکرکی جیت کا خاموش لیکن انتہائی پرزوراعلان ہوچکاتھا۔لوگ ہارے ہوئے جنرل مری اور اس کے ساتھیوں کے استقبال کیلئے دودن تک شال میں انتظار میں رہے۔لوگوں کا جمع غفیر دیکھ کر بابا کو ایک بات یادآئی اور کہا کہ ’’حیران ہوں
لوگ کیوں جمع ہیں‘سوچا تھا لوگ انڈے اور ٹماٹر ماریں گے یہاں لوگ استقبال اور’’مری آئیں گے انقلاب لائیں گے کے نعرے لگا رہے ہیں‘‘ میں تو ہارا ہوا جنرل ہوں‘‘درحقیقت بابا ہارے ہوئے جنرل اور انڈے ٹماٹر کی بات فکری بنیاد پر کہہ گئے تھے‘ایک تو یہ کہ لوگ جاننے کی کوشش کریں کہ یہ ہجرت کیوں ہوئی اور دوسری یہ کہ بلوچستان میں تاثر عام ہوگیا تھا کہ ہارا ہواشکست خوردہ جنرل افغانستان گیا ہے تو پھر استقبال کیسا؟؟؟؟باباکی فکر اوراس فکر سے منسلک ملک نوراحمد جیسے لوگ یقیناً اس دن ایک بارپھرجنگ اورجنگ کے بعد کی نفسیات کو بلوچ قوم بالخصوص ان قوتوں کو سمجھادیا تھا جنہوں نے ’’خالی جگہ پر‘‘ کرنے کی جتن کی تھی‘‘ جوشکست اور ہارے ہوئے جنرل کا لقب بھی ان کیلئے مخصوص کیاتھا۔ بابامری آگئے تھے فکری بیٹھک سجنے لگا‘ملک نوراحمد قمبرانی رہی سہی زمینداری چھوڑ کر ’’حق توار ‘‘سرکل کے ہی ہوگئے ۔سائیکل پر روز مری ہاؤس پہنچ جایاکرتے تھے ۔حق توار کے سنگت شہید ملک نوراحمد قمبرانی شہید آغا محمود جان احمد زئی ‘شہید میر غفار لانگو میر عبدالنبی بنگلزئی ‘شہید نذیر مری کامریڈ اعظم لانگو مرحوم ودیگربہت سے ساتھی موجودہوتے ۔ملک نوراحمد قمبرانی آزاد ی پسندکارکنوں پرجان چھکڑتے تھے۔کوہلو ہو یا تربت پنجگور‘خضدار ہو سوئی ڈیرہ بگٹی جہاں کہیں آزادی پسندوں کے خلاف ریاستی جبر ہوتا ملک اس دن افسردہ نظر آتے۔حالات حاضرہ کے تبصرے ہوں یا خبریں‘ان سے آگاہی حاصل کرنا ملک نوراحمد کا معمول تھااورپھران تبصروں اور تجزیوں پر بحث ومباحثہ بھی لازمی ہوتا تھا۔چھوٹے ہوں یا بڑے تمام لوگوں سے آزادی پسند تحریک کے موضوع پر بات کرنا ملک نوراحمد کی خاص پہچان تھی۔وہ شادی بیاہ کی تقاریبات یا ایسے دیگر موقعوں پر بھی نوجوانوں سے گل مل کر ان سے تحریک کے موضوعات کو زیربحث لاتے۔ایک دفعہ ملک نوراحمد قمبرانی کی طبعیت خراب ہوگئی اورہسپتال میں داخل ہوگئے۔وہاں مزاج پرسی کیلئے گیا تو وہاں بھی ملک نے ادھرادھر کی باتوں کی بجائے تحریک کی باتیں شروع کیں۔کہا آج کل ’’آغاز حقوق بلوچستان پیکیج کا چرچا ہے‘‘ ممکن ہے کہ کچھ لوگ اس پیکیج کو شارٹ کٹ راستہ سمجھ کر اس بہکاوئے میں آجائیں ایسے لوگ ہمیشہ نوکریوں اور وقتی مراعات کے اسیر ہوتے ہیں۔آغا محمود سے اگر ملاقات ہوتی‘یا میر غفارلانگو سے بات چیت یا پھرمیر عبدالنبی بنگلزئی سے جیل میں اور بعد میں گھرپر بات ہوتی ‘اعظم لانگوسے سرے راہ ملاقات ہوتی تو ملک نوراحمد قمبرانی کے حوالے کے بغیر ان اصحاب کی بات مکمل نہیں ہوتی۔مجھے بھی ملک نوراحمد قمبرانی سے خاص رغبت تھی ‘ان حوالوں سے مجھے بھی ان دوستوں سے جب بھی بات چیت کا موقع ملتاتو ملک نوراحمد قمبرانی کا ذکر چھڑتااور جب ملک نوراحمد قمبرانی سے ملاقات ہوتی تو ان سمیت دیگر ساتھیوں کا ذکر ضرور ہوتا۔آغا محمود تو ملک نوراحمد کا نام انتہائی احترام سے لیتے اور کہتے کہ یہ اصحاب ہماری تحریک کے روحانی اثرات ڈالنے والے لوگ ہیں ۔آغا محمود بابا مری اور ان کے ملک نورجیسے قریبی ساتھیوں کا جب ذکر کرتے تو ان کے چہرے پر عجیب رونق آجاتی ۔مجھے یاد ہے جب قلات پہنچے اور آغا محمود سے فون پر ملاقات کی خواہش کا اظہار کیاتو کہنے لگے میں بھی بازار میں ہوں اور جب انہوں نے ہماری گاڑی دیکھی تو اشارہ کیا کہ میرے گاڑی کے پیچھے آجائیں۔ہم ان کے پیچھے ہولئے ۔قلات شہر سے کچھ دورمین ہائی وے پر ایک ہوٹل پر رکے اور پھر دوگھنٹے تک تو چائے پر آغا سے بات ہوئی ۔آغا اپنے اندر ایک اکیڈمی تھے ‘اور جب ایسا شخص بھی ملک نوراحمد قمبرانی کا نام جس احترام سے لیتے تھے تو ملک نوراحمد قمبرانی کیلئے احترام اور بڑھ جاتا اور جب میرغفار لانگومامانوراحمد کہتے تو ان کی آنکھوں میں چمک آجاتی ۔ملک نوراحمد قمبرانی جس انداز سے تحریک آزادی سے وابستہ رہے وہ یقیناً بابامری کی
مستقل مزاجی کے شرط اول کی مانند تھی اوراس پر ملک نوراحمد قمبرانی پورا پورا اترے۔وہ بابامری کے عقیدت مندوں میں سے تھے اور جب تحریک حق توار کے بیٹھک سے نکل کر بلوچستان کے پہاڑوں میں گونجنے لگی تو تب بھی ملک عزم وحوصلے کیساتھ کھڑے رہے۔آج تک اف تک نہ کیا‘فورسز نے ملک کے گھر کی راہ دیکھ لی تھی ‘آئے روز چھاپوں کا سلسلہ جاری تھا ۔ملک نوراحمد قمبرانی کے حوصلے مزید بلند ہوتے گئے۔وہ جب تک حق توار کے اسٹڈی سرکل رہے وہ ہمہ وقت موجودرہے‘بابامری نے اس دوران خضدار مچھ اور دیگر علاقوں کا دورہ کیا۔ملک نوراحمد قمبرانی ان کے ساتھ موجود رہے‘ملک بابا مری سے کیسے دورہوسکتے تھے کہ ایک بار موقع ضائع کرنے کا وہ باربار افسوس کرتے تھے کہ جب بابامری افغانستان میں موجود تھے تو خان عبدالغفار خان کاانتقال ہوگیا‘میت جلال آباد افغانستان لائی گئی۔پشتون اور بلوچ رہنماء وکارکنوں کی بڑی تعداد میت کیساتھ جلال آباد گئی۔ مرحوم بابوعبدالرحمان کرد بھی جلال آباد گئے اور وہاں بابا مری بھی پہنچے تھے تو بابوعبدالرحمان کی بابا مری سے ملاقات ہوئی۔ملاقات میں دیگر باتوں کیساتھ ساتھ بابا مری نے بابوعبدالرحمان کرد سے ملک نوراحمد کے بارے میں پوچھا کہ نوراحمد کیسے ہیں؟جب بابو نے واپسی پر یہ بات ملک سے کہی تو ملک کو بابامری سے ملاقات کا موقع ضائع کرنے کا انتہائی افسوس ہوالیکن جب بابا مری واپس شال آئے تو ملک نوراحمد نے جی بھر کے بابا کی صحبت حاصل کی ۔ایسے لوگ ہوتے ہیں جو بلاکسی ذاتی مقصد اور نمود ونمائش کے اجتماعی مفاد کی تحریکوں سے ایسے وابستگی اختیار کرتے ہیں کہ موت بھی ان کی وابستگی کا زک نہ پہنچا سکے۔آج ملک نوراحمد قمبرانی کی مستقل مزاجی اور بابامری سے سنگتی کا سرفخر سے بلند ہے۔
ملک نوراحمد قمبرانی کو کیا معلوم کہ ایک بارپھر بابا مری سے جدائی ہوگی۔بابا مری جسٹس نواز قتل کیس میں گرفتار ہوئے‘رہائی کے بعد کچھ عرصہ شال میں رہنے کے بعد کراچی چلے گئے۔حالات میں ایک بار پھرتلخی آگئی تھی۔نواب خیر بخش مری وقریبی ساتھیوں کوجیل میں ڈالنے اور ان کی رہائی کے بعد تفتیش اور جرح کا ایک سلسلہ نکل پڑا تھا۔بابامری کے پاس حق توار کی تربیت لینا انتہائی مشکل بنادیاگیاتھا۔نوجوان سنگتوں کو بابا مری سے دورکردیاگیاتھا اوران میں سے ہر کوئی اپنی سمتوں کا تعین کرکے چلے گئے تھے۔اب وقت کم بچا تھا‘ملک نوراحمد قمبرانی جیسے دیگر کئی ساتھیوں کی بابا مری کے پاس آمد کی سزائیں دی جانے لگی تھیں‘باربار تفتیش اور جرح‘‘گویا حق توار میں حاصل تربیت کے عملی اثرات نے ریاست کو اقدام اٹھانے پر مجبور کردیاگیاتھا۔نواب خیر بخش مری کراچی چلے گئے۔ایک بار پر بابامری شال کو خیر بادکہہ گئے تھے۔اس بار کی جدائی اور اس سے پہلے افغانستان جانے کی جدائی میں ظاہری طورپر بڑا فرق تھا‘لیکن مقصد ایک تھا پہلے کے بار کی جدائی میں بابا مری کچھ بننے(تربیت ) کی خاطر افغانستان گئے تھے بعد میں شال چھوڑا کچھ کرنے کی خاطر۔اس بار فاصلے نسبتاً کم تھے لیکن پرخطر تھے۔تاہم اس بار افسوس کی کوئی گنجائش نہیں تھی بالآخر ملک نوراحمد قمبرانی بابامری کے پاس کراچی پہنچ گئے۔
پیران سالی کے باوجود ملک آخر تک بابامری کی فکر سے جڑے رہے۔سیٹلائٹ ٹاؤن میں قائم ایک واجبی سی دکان میں ملک نوراحمد بیٹھتے جہاں سیاسی کارکن آتے اور گپ شپ ہوتی جہاں ریاست سے یہ فکری بحث ومباحثے برداشت نہیں ہوئے اور بالآخر 30جون 2012میں جب ملک نوراحمد قمبرانی اپنی دکان میں دوپہر کے وقت موجود تھے تو دولوگوں نے خنجروں سے سینے پر پے درپے وارکئے اور بھاگ نکلے۔ملک نوراحمد قمبرانی شدید زخمی حالت میں ساتھ والی دکان تک ہی پہنچ سکے۔جب لوگوں نے ہسپتال پہنچایا تو ملک دارے فانی
سے کوچ کرگئے تھے اور شہید ہوگئے۔کل کے اخبارات میں شہ سرخیاں چھپیں کہ ’’نواب خیر بخش مری کے قریبی ساتھی ملک نوراحمد قمبرانی کو شہید کردیاگیا‘‘اس سے قبل ماسٹرنذیر مری کو ان کے سکول کے سامنے فائرنگ کرکے شہیدکردیاتھا۔کچھ ہی دن بعد ملک نوراحمد قمبرانی کو شہید کیاگیا۔یہ قتل کا وہ سلسلہ تھا جو خاص طورپر نواب مری کو حراساں کرنے کی کوشش تھی جہاں ان کے ملک نوراحمد قمبرانی اور ماسٹر نذیر مری جیسے ساتھیوں کو شال میں دردناک انداز میں شہید کیاگیا۔ملک نوراحمد قمبرانی کی شہادت پر بلوچ دوست رہنماء حیر بیار مری نے انتہائی دکھ کا اظہار کیا اور کہا کہ’’میں ملک نوراحمد قمبرانی کو ذاتی طورپر جانتا تھا‘وہ ایک سچے محب وطن تھے اور نڈر بلوچ شخصیت تھے‘ملک نوراحمد قمبرانی کو دشمن ریاست کے کاسہ لیسوں نے شہید کیا‘ملک نوراحمد کی فکر بلوچ نوجوانوں کی رہنمائی کرتی رہے گی‘ریاست چن چن کر بلوچ محب وطنوں کو شہید کررہی ہے بلوچ تحریک آزادی ان تمام شہداء کے خون کے ایک ایک قطرے کا حساب لے گی‘‘بی آرپی کے رہنماء شیر محمد بگٹی نے بھی انتہائی دکھ اورافسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ ملک نوراحمد قمبرانی نواب مری اور نواب بگٹی کے سچے دوست تھے۔انہوں نے ملک نوراحمد قمبرانی کی پیراں سالی میں بیدردی سے شہید کرنے کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔بی این ایم کے چیئرمین خلیل بلوچ نے ملک نوراحمد قمبرانی کو ’’بلوچ قوم پرستی کا استاد قرار دیا اورکہا کہ ملک نوراحمد نے نوجوانوں کی ہمیشہ فکری تربیت کی ۔اسی طرح بی ایس اوآزادنے بھی شاندار انداز میں ملک نوراحمد قمبرانی کو خراج عقیدت پیش کیا۔
آج ان کی تیسری برسی ہے تاہم دیگربلوچ آزادی پسند شہداء کی طرح ملک نوراحمد قمبرانی کی برسی بھی اجتماعی طورپر 13نومبر کوہر سال منائی جاتی ہے۔یہ عین قومی فیصلہ ہے جہاں شہداء کی برسی اجتماعی طورپر ایک دن ہی منائی جائے۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز