کابل (ہمگام نیوز) مانیٹرنگ نیوز ڈیسک رپورٹ کے مطابق طالبان ترجمان نے اس ٹائم فریم کی تصدیق کرنے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ جب دونوں فریقین عملدرآمد کے طریقہ کار پر رضامند ہوجائیں گے تو اس کا باضابطہ اعلان کردیا جائے گا۔
ادھر امریکا نے انخلا کی مدت کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی تاہم امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ایک عہدیدار نے فرانسیسی خبر رساں ایجنسی ‘اے ایف پی’ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد اور ان کی ٹیم نے ’امن عمل میں خاصی پیش رفت کی ہے‘۔
خیال رہے کہ واشنگٹن، طالبان کے ساتھ یکم ستمبر تک معاہدہ کرنا چاہتا ہے کیونکہ اسی ماہ افغانستان میں صدارتی انتخاب بھی ہو گا، جبکہ امریکی صدارتی انتخاب 2020 میں ہو گا۔ طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’انخلا کے وقت کے حوالے سے ہم سمجھوتے پر پہنچ چکے اور اس پر عملدرآمد کے طریقہ کار کے حوالے سے بات چیت کی جارہی ہے‘۔
قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکا کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کے نویں دور کے دوسرے روز کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ’آج ہماری عمومی گفتگو ہوئی اور کل ہم عملدرآمد کے بارے میں بات چیت کریں گے‘۔ افغانستان میں 18 برس سے جاری جنگ کے خاتمے اور قیامِ امن کے سلسلے میں افغان طالبان اور امریکا کے مابین ہونے والے مفاہمتی عمل میں غیر ملکی افواج کے انخلا کی مدت پر اتفاق ہو گیا۔خیال رہے کہ امریکا اور طالبان کے درمیان امریکی افواج کے انخلا، جنگ بندی، بین الافغان مذاکرات اور افغانستان کو عالمی دہشت گردی کا محرک نہ بننے دینے کی ضمانت کے حوالے سے بات چیت کے 8 ادوار مکمل ہو چکے ہیں۔
تاہم اب بھی طالبان ڈاکٹر اشرف غنی کی حکومت کو ماننے سے انکاری ہیں البتہ ان کا کہنا تھا کہ امریکا کے ساتھ افواج کے انخلا کے ٹائم فریم پر سمجھوتہ ہونے کی صورت میں وہ امن معاہدے کے لیے بین الافغان مذاکرات میں شرکت کریں گے۔
دوسری جانب اپنی گفتگو میں سہیل شاہین نے افواج کے انخلا کے اوقات کار کے بارے میں کچھ نہیں بتایا البتہ افغان میڈیا میں طالبان ذرائع کے حوالے سے کہا گیا کہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کی مدت 15 ماہ سے 2 سال کے درمیان ہے۔دوسری جانب افغان صدر اشرف غنی نے کہا کہ ان کی حکومت ’جامع مذاکرات‘ کے لیے امریکا اور طالبان کے درمیان طے پانے والے سمجھوتے پر دستخط ہونے سے قبل اس دستاویز کا جائزہ لے گی۔
قومی ٹیلی ویژن پر انٹریو دیتے ہوئے افغان صدر کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر آئندہ 5 ماہ کے عرصے میں 5 ہزار امریکی فوجی بھی افغانستان سے چلیں جائیں تو افغانستان کو اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا‘۔اس ضمن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ’یہ مضحکہ خیز بات ہے کہ ہم افغانستان میں 18 برس سے ہیں، ہم افغان حکومت اور طالبان دونوں سے اچھی بات چیت کر رہے ہیں اور اب دیکھنا یہ ہے کہ آگے کیا ہوگا‘؟