کابل(ہمگام نیوز) افغانستان میں دار الحکومت کابل پر کنٹرول حاصل کرنے کے تین برس سے زیادہ عرصے کے بعد تحریک طالبان نے حال ہی میں ایک نیا فیصلہ جاری کیا ہے جس کے تحت لڑکیوں کو طبی تعلیم کے اداروں میں پڑھنے سے روک دیا گیا ہے۔ اس سے قبل طالبان سیکنڈری اور انٹرمیڈیٹ مراحل میں لڑکیوں کی تعلیم کو ممنوع قرار دے چکے ہیں۔
کہا جا رہا ہے کہ طالبان سربراہ ملا ہیبت اللہ اخونزادہ کی جانب سے جاری ان سخت گیر فیصلوں کے سبب افغانستان کو طویل مدت میں ایک تاریک مستقبل کا سامنا ہو سکتا ہے۔
طالبان کے حالیہ فیصلے کے نتیجے میں ملک 13 برس کے لیے لیڈی ڈاکٹروں سے محروم ہو سکتا ہے۔ سیکنڈری، انٹرمیڈیٹ مرحلوں اور تمام جامعات اور انسٹی ٹیوٹس میں طالبات کی تعلم کا سلسلہ روک دیے جانے کے بعد میڈیکل کالجز اور انسٹی ٹیوٹس سے آئندہ دس برس سے زیادہ عرصے تک کوئی طالبہ فارغ التحصیل نہیں ہو گی۔
طالبان حکومت میں وزارت صحت اور اعلی تعلیم کی وزارتوں نے منگل کے روز سے ملا ہیبت اللہ کے اس نئے حکم نامے پر عمل درآمد کا آغاز کر دیا۔
ادھر عالمی ادارہ صحت کے اعلان کے مطابق حمل اور پیدائش سے متعلق امراض کے سبب افغانستان میں روزانہ 24 مائیں اور 167 بچے موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ تاہم اس صورت حال سے بچاؤ ممکن ہے۔ ادارے نے خبردار کیا ہے کہ اسکولوں اور جامعات میں لڑکیوں کی تعلیم روک دیے جانے سے افغان خواتین کے خراب حالات میں اضافہ ہو گا۔
کابل سے دو خواتین طبی رضاکار
کابل سے دو خواتین طبی رضاکار
افغانستان میں طب کی تعلیم کے بعض اداروں کے اندر بنائے گئے وڈیو کلپوں میں طالبات کو کلاسوں میں داخل ہونے کی کوشش کرتے دیکھا جا سکتا ہے تاہم وہاں موجود طالبان عناصر کی بڑی تعداد نے فیصلے پر عمل درآمد کرتے ہوئے طالبات کو اجازت دینے سے انکار کر دیا۔
یہ فیصلہ ایسے وقت میں آیا ہے جب افغان عوام کو متعدی امراض، خشک سالی اور حالیہ سیلابی بارشوں کے سبب بڑے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ ان کے نتیجے میں جنم لینے والی خوراک کی کمی اور ناقص خوراک نے عورتوں اور بچوں کو سب سے زیادہ متاثرہ طبقہ بنا دیا ہے۔
بین الاقوامی تنظیموں کی رپورٹوں کے مطابق ملک میں ہسپتالوں اور طبی مراکز میں خواتین ڈاکٹروں اور نرسوں کی شدید کمی دیکھی جا رہی ہے۔
طالبان تحریک اس سے پہلے ایک حکم نامے میں خواتین کا معائنے کے لیے مرد ڈاکٹروں کے پاس جانے کو ممنوع قرار دے چکی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ حالیہ فیصلے نتیجے میں ملک میں صحت کا ایک بڑا بحران سامنے آئے گا۔
با خبر ذرائع اس سے پہلے العربیہ ڈاٹ نیٹ کو آگاہ کر چکے ہیں کہ طالبان تحریک کے سربراہ لڑکیوں کے پرائمری اسکولوں کی بندش کا فیصلہ بھی کر سکتے ہیں۔
اگست 2021 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے طالبان کئی سخت گیر قوانین لاگو کر چکے ہیں۔ خواتین کے لیے گھر سے باہر چہرہ کھولنا ممنوع قرار دیا گیا ہے۔
اسی طرح شادیوں میں موسیقی اور رقص پر پابندی عائد کی جا چکی ہے اور بہت سے بیوٹی پارلروں کو بند کر دیا گیا۔ مردوں کے لیے داڑھی منڈوانا یا مغربی لباس مثلا “short” وغیرہ پہننا ممنوع کر دیا گیا ہے۔