کوئٹہ ( ہمگـام نیوز) بلوچ سالویشن فرنٹ کے مرکزی ترجمان نے انسانی حقوق کے عالمی دن کے مناسبت سے اپنی موقف جاری کرتے ہوئے کہاہے کہ پاکستانی ریاست بلوچستان میں بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں میں ملوث ہے عالمی اداروں کی خاموشی سے فائدہ اٹھاکر ریاست آزادانہ اور بلا روک ٹوک بلوچ سیاسی کارکنوں کا نہ صرف جبری طور گمشدگی کا زمہ دار ہے بلکہ انہیں ماورائے عدالت شہید کرنے کا مرتکب ہے
بیان میں کہا گہا ہے انسانی حقوق کے چارٹر کی منظوری دس دسمبر 1948 کو اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی میں باقاعدہ منظور کیا گیا تھا عالمی تنظیم میں شامل تمام ممالک نے اس چارٹر پر دستخط بھی کئے جس سے مظلوم اور غلام اقوام کو ایک حوصلہ ملا کہ اقوام متحدہ اب ان ممالک کی ظلم و بربریت کی پالیسیوں میں نکیل ڈالے گی
لیکن اقوام متحدہ کے بانجھ اور غیر فعال کردار سے یہ لگتاہے کہ یہ طاقتور اقوام کے لئے بنا یا گیا ہے کمزور قوموں کے لئے یہ اب تک کارگر ثابت نہیں ہوئی جس کا سلطانی گواہ خود بلوچ قوم ہے
جہاں دہائیوں سے بلوچ قوم کے بے رحمی کے ساتھ نسل کشی کی جارہی ہے سالوں سے مائیں اپنی جبری گمشدہ بیٹوں کے بازیابی کے لئے احتجاج کررہے ہیں لیکن اقوام متحدہ جیسے ادارے پاکستانی ریاست کی نسل کش پالیسیوں کے خلاف کسی بین الاقوامی فیصلہ کے پوزیشن میں نظر نہیں آتے اب تک ریاست کو باضابطہ نہ تو چارج شیٹ کیا گیا اور نہ ہی اسے کسی ایسی دبائو بندش یا پابندی کے زیر اثر لایا گیا بلکہ اقوام متحدہ ان کے بربریت کے پیچھے سائبان بنے ہوئے ہیں
بیان میں کہاگہاہے کہ انسانی حقوق کا نعرہ لگاکر بلوچ قوم کے ساتھ مذاق کیا جارہا ہے بلوچستان میں روزانہ کے حساب انسانی حقوق کےخلاف ورزیان ہورہی ہیں روزانہ درجنوں واقعات انسانی حقوق کی پائمالیوں کے حوالہ سے ریکارڈ کی جارہی ہے ریاستی بربریت میں مندی کے بجائے شدت پیدا ہورہاہے لیکن اقوام متحدہ سمیت عالمی قوتین ویٹو پاور ممالک خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں اور اپنے ہی چارٹر کے زریعہ انسانی حقوق کا مذاق اڑانے کا لطف اٹھا رہے ہیں
دس دسمبر انسانی حقوق کا یادگار دن نہیں بلکہ انسانی حقوق کا مرثیہ اور فاتحہ کا دن کہا جائے تو مناسب ہوگا
بیان میں کہا گیا ہے کہ انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتاہے کہ ریاست کے ساتھ شریک بلوچ اقتدار بان سیاستدان بھی انسانی حقوق کی واویلا بلوچ عوام کی ہمدریاں جیتنے کے لئے کررہے ہیں ایک طرف وہ ریاستی پارلیمنٹ چند نشست کے حاصلات اور مراعات کو اپنی منزل و اہداف سمجھتے ہیں دوسری طرف وہ بلوچ عوام کی منافقانہ طرف داری کے ساتھ خود کو بلوچ دوست ظاہر کررہے ہیں
اگر دیکھا جائے تو بلوچ پارلیمنٹرین کی اب تک نکسیر تک بلوچستان کے لئے نہیں پھوٹی گھر ان لوگوں کے اجڑ گئے ہیں جو قومی جدوجہد میں اپنی زندگیاں قربان کی آج ان کی قربانیوں ان کی گمشدگی کی ازیتوں کو کیش کرنے کے لئے پارلیمانی جماعتیں بڑی چالاکی سے تحریک میں گھسنے کی کوشش کرتے ہوئے بلوچ قومی جدوجہد کی بنیادی موقف کو کاونٹر کرنے کی کوشش کررہے ہیں حالانکہ یہ پارلیمنٹ کا حصہ ہوتے ہوئے خود انسانی حقوق کی پائمالیوں میں ملوث ہے جیسے کہ بلوچی میں کہتے ہیں اگر آپ چور نہیں تو چور کا سہولت کار ہے دز خانہ ہے