کوئٹہ : بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے گزشتہ دو سال سے لاپتہ عبدالحفیظ زہری اور ان کے خاندان بشمول خواتین پر کراچی میں حملے کیخلاف کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا گیامظاہرین کی قیادت چیئرمین بلوچ مسنگ پرنسز نصر اللہ بلوچ اور ماما قدیر کر رہے تھے۔ مظاہرین نے پلے کارڈز اور بینرز اٹھا رکھے تھے جس پر لاپتہ افراد کی بازیابی کے حق میں نعرے درج تھے مقررین نے کہا کہ ریاستی اداروں کی جانب سے بلوچ خواتین اور عدالت سے رہائی کے باوجود عبدالحفیظ پر حملے کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں جو کہ بلوچ عوام کے خلاف دن دہاڑے ریاستی جبرہے۔
احتجاج میں شریک افراد نے عبدالحفیظ کی جان سلامتی اور حفاظت کا مطالبے کیلئے نعرے بازی کی گئی اور حملے کے خلاف آواز بلند کی گئی۔ مقررین نے مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی مہذب ریاست میں عدالتوں کے فیصلے اٹل اور آخری فیصلے ہوتے ہیں مگر پاکستان میں شہری حقوق کے معاملے میں اور خاص کر بلوچستان کے حوالے سے شہری حقوق مکمل طور پر سلب کیے گئے ہیں اور عدالتی احکامات کو بھی مکمل طور پر رد کیا جاتا ہے۔
عبدالحفیظ زہری کو گزشتہ سال دبئی سے غیر قانونی طور پر پاکستان ڈی پورٹ کیا گیا جنہیں دو سال تک مکمل طور پر لاپتہ کیا گیا اور جب سندھ ہائی کورٹ سے عبدالحفیظ کی بے گناہی ثابت ہوئی اور انہیں رہائی ملی تو سیکورٹی اداروں کے اہلکاروں نے رہائی کی فوری بعد انہیں اور ان کے خاندان والوں کو سرعام نشانہ بنایا ،ا ن پر فائرنگ کی گئی ، خواتین کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور انہیں دوبارہ جبر ی طور پر لاپتہ کرنے کی کوشش کی گئی جسے لواحقین نے بڑی مشکل سے ناکام بنایا مگر اب بھی خاندان کو اس بات کا خوف ہے کہ عبدالحفیظ کو غیر قانونی طور پر واپس جبری طور پر لاپتہ کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ یہ افسوس کی بات ہے کہ سیکورٹی اداروں نے سندھ ہائی کورٹ کے احکامات کی مکمل طور پر خلاف ورزی کرتے ہوئے عبدالحفیظ پر حملہ آور ہوئے اور اس سے بڑے المیے کی بات یہ ہے کہ اب تک سندھ حکومت اور سندھ ہائی کورٹ اس ظلم اور ناانصافی کی انتہا پر مکمل طور پر خاموش ہیں اور اس غیر قانونی کارروائی میں شامل کسی بھی افسر سے کوئی بھی جواب طلبی نہیں کی جا رہی ہے۔
اس سے سندھ حکومت اور سندھ ہائی کورٹ بلوچوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ سندھ میں بلوچوں کے کوئی بھی حقوق محفوظ نہیں اور اگر عدالت بھی بلوچ عوام کو حقوق دینے میں ناکام رہتے ہیں تو بلوچ اس ریاست میں اپنے حقوق کیلئے کون سا دروازہ کھٹکھٹائیں۔ عدالت کو چاہیے کہ وہ اس معاملے میں سنجیدگی دیکھاتے ہوئے اس کارروائی میں شامل افراد کو حراست میں لیں اور عبدالحفیظ کی خاندان بشمول انہیں حفاظت دیں جنہیں سیکورٹی اداروں کی جانب سے سنگین خطرات کا سامنا ہے۔ ریاستی اداروں نے اس خاندان پر پہلے بھی بہت سے ظلم کے پہاڑ توڑے ہیں اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے اور تمنے کا نام نہیں لے رہا بلکہ دبئی میں بھی خاندان کے افراد کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ مقررین نے احتجاج کے آخر میں ریاستی اداروں کے خلاف سنگین نعرے بازی کرتے ہوئے ایسے مظالم کی بھرپور الفاظ میں مذمت کی اور متعلقہ اداروں سے اپیل کیا کہ وہ ایسے مظالم دہرانا بند کر دیں جو مزید نفرت کا سبب بنیں۔