غزہ(ہمگام نیوز) غزہ میں اسرائیلی فوج نے 14 ماہ سے زائد عرصے سے جاری جنگ کے دوران 45028 فلسطینیوں کو قتل کر لیا ہے۔ تاہم فلسطینیوں کے قتل کا یہ سلسلہ ابھی پوری قوت سے اسرائیلی فوج نے جاری رکھا ہوا ہے۔

غزہ کی وزارت صحت نے یہ اعداد و شمار جاری کرتے ہوئے یہ فرق بیان نہیں کیا ہے کہ ان قتل کیے گئے غزہ کے رہائشی فلسطینیوں میں کتنے مرد ہیں ۔ کتنی خواتین ہیں یا کتنے بچے قتل کیے گئے ہیں۔ عمومی طور پر اقوام متحدہ کے مختلف ادارے یہ بیان کرتے رہے ہیں کہ ان مقتول فلسطینیوں میں 70 فیصد تک فلسطینی عورتیں اور بچے ہیں۔ ان اعداد و شمار کے بارے میں سخت چھان پھٹک کا رجحان رکھنے والے ملک اور طبقات بھی یہ مانتے ہیں کہ اسرائیلی فوج کے ہاتھوں قتل ہو چکے فلسطینیوں میں نصف سے زائد فلسطینی عورتیں اور بچے ہیں۔

حتیٰ کہ اسرائیلی فوج کا بھی یہ کہنا ہے کہ ان قتل کیے گئے فلسطینیوں میں 17000 فلسطینی جنگجو ہیں۔ اسرائیلی موقف کو تسلیم کیا جائے تو بھی 28 ہزار مقتول عام فلسطینی شہری ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو بین الاقوامی عدالت انصاف کا اسرائیل کو فلسطینیوں کی نسل کشی سے احتیاط کرنے کا حکم اور بین الاقوامی فوجداری عدالت کی طرف سے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو اور سابق وزیر دفاع یوو گیلنٹ کے جنگی جرائم میں وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کا معاملہ عام فلسطینیوں اور بچوں کے قتل عام کی تصدیق کے لیے کافی ہیں۔

غزہ کی وزارت صحت کے پیر 16 دسمبر کو جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق اب تک اسرائیلی فوج نے 106962 فلسطینیوں کو زخمی کیا ہے۔ زخمی فلسطینیوں کے حوالے سے یہ پہلو بھی اہم ہے کہ ان زخمیوں کو ہسپتالوں تک پہنچنے میں پہلے بمباری کے ساتھ متعلقہ علاقوں کی ناکہ بندی کو اسرائیلی فوج طول دیتی رہتی تھی اور اب فوج نے غزہ میں کسی بھی ہسپتال کو اس حال میں نہیں رہنے دیا ہے کہ وہاں زخمیوں کا علاج ہو سکے۔ جبکہ ان زخمیوں کو غزہ سے باہر جانے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ کہ غزہ شروع سے ہی زیر محاصرہ ہے۔

اسی غزہ میں اکتوبر 2023 سے جاری اسرائیلی جنگ کے دوران اب تک تقریبا 23 لاکھ فلسطینی بے گھر ہو کر نقل مکانی کر چکے ہیں۔ تقریبا پورے غزہ کی پٹی پر مکانوں، گھروں، مساجد، گرجا گھروں، ہسپتالوں، سکولوں کا ملبہ ڈھیروں کی صورت میں پڑا ہوا ہے۔ جسے اٹھانے میں کئی سال درکار ہوں گے۔

ادھر پیر کی دوپہر تک کی گئی اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں 10 فلسطینی قتل ہو چکے تھے۔ جن میں ماں باپ سمیت ان کے دو بچے بھی

شامل ہیں۔