واشنگٹن(ہمگام نیوز ) امریکی وزیرِ خارجہ انٹونی بلنکن نے منگل کو کہا کہ اسرائیلی وزیرِ اعظم بنجمن نیتن یاہو نے یروشلم میں ان سے ملاقات کے دوران غزہ میں جنگ بندی کی تجویز پر “اپنے وعدے کا اعادہ” کیا۔
بلنکن نے کہا، “میں نے گذشتہ رات وزیرِ اعظم نیتن یاہو سے ملاقات کی جس میں انہوں نے اس تجویز کے حوالے سے اپنے وعدے کا اعادہ کیا۔” انہوں نے مزید کہا کہ جنگ بندی کی امریکی مسودہ قرارداد پر اقوامِ متحدہ کے ووٹ کا حماس کی طرف سے خیرمقدم ایک “پُرامید” علامت ہے۔
انہوں نے کہا، “یہ ایک پُرامید علامت ہے جس طرح صدر (جو بائیڈن) کے 10 دن قبل تجویز پیش کرنے کے بعد جاری کردہ بیان امید افزا تھا۔”
نیز انہوں نے کہا، “لیکن یہ فیصلہ کن نہیں ہے۔ فیصلہ کن وہ ہو گا جو غزہ اور غزہ میں حماس کی قیادت کی طرف سے آئے گا یا کم از کم وہ جو اب تک کسی نہ کسی طریقے سے فیصلہ کن رہا ہے۔ اور یہی بات اہمیت کی حامل ہے۔ اور یہی ہمارے پاس نہیں ہے۔”
انہوں نے کہا، “ہمیں حماس کے جواب کا انتظار ہے۔”
اسرائیل کا بھی تاحال باضابطہ طور پر یہ اعلان کرنا باقی ہے کہ اس نے جنگ بندی تجویز قبول کر لی ہے جس کا انکشاف بائیڈن نے 31 مئی کو کیا تھا۔
بائیڈن نے جو تجویز پیش کی، اسے انہوں نے تین مراحل پر مشتمل ایک اسرائیلی منصوبے کا نام دیا ہے جو تنازعہ کو ختم کر دے گا، تمام یرغمالیوں کو آزاد کروائے گا اور حماس کے اقتدار کے بغیر تباہ شدہ فلسطینی علاقے کی تعمیرِ نو کا باعث بنے گا۔
بائیڈن کے اس منصوبے کے انکشاف کے فوراً بعد نیتن یاہو نے کہا کہ روڈ میپ صرف “جزوی” تھا۔
پیر کے روز حماس نے کہا، وہ جنگ بندی منصوبے کی حمایت کرنے والی قرارداد منظور کرنے کے لیے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے ووٹ کا “خیر مقدم” کرتی ہے۔
لیکن غزہ میں اسرائیلی فوج کے ساتھ شدید لڑائی لڑنے والے فلسطینی گروپ کا اصرار ہے کہ اس کے مطالبات پورے کیے جائیں جن میں غزہ میں مستقل جنگ بندی اور علاقے سے اسرائیلی افواج کا مکمل انخلاء شامل ہیں۔
بلنکن نے کہا کہ فوجی نقطۂ نظر ہمیشہ “کافی نہیں تھا اور اس اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ایک واضح سیاسی منصوبہ، ایک واضح انسانی منصوبہ ہونا چاہیے کہ حماس کا کسی بھی طرح، کسی بھی شکل میں غزہ پر کنٹرول نہ رہے اور یہ کہ اسرائیل مزید پائیدار سلامتی کی طرف بڑھے۔”