کوئٹہ ( ہمگام نیوز) بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ بلوچ قوم جہاں اس وقت غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے تو دوسری جانب اسی غلامی کے خلاف جدوجہد بھی کررہا ہے۔ پاکستانی ریاست اپنی قبضہ گیریت کودوام بخشنے اور بلوچ قوم کے گلے میں غلامی کے طوق کو برقرار رکھنے کےلیے ہر قسم کے گھناؤنے اور اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنے سے دریغ نہیں کرتی جس کی واضح مثال حالیہ دنوں ریاست کی بدترین انتظامات کے سبب بلوچ سرزمین میں بارش سیلابی ریلےمیں تبدیل ہوئے اور سینکڑوں لوگ جان بحق ہوگئے ۔
انھوں نے کہا کہ اس خطے میں رونما ہونے والے قدرتی آفات کاا گر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بلوچستان ہی وہ خطہ ہےجو قدرتی آفات سے نہ صرف شدید متاثر ہوا ہے بلکہ ہزاروں لوگوں کوہلاک کرنے کا موجب بھی بنی ہے۔ ریاست انھی قدرتیآفات کو بطور ہتھیار استعمال کرتی ہے تاکہ بلوچ عوام زیادہ سے زیادہ متاثر ہو اور بلوچ نسل کشی میں مزید تیزی لائی جا سکے۔ 2013 کو آواران میں ہونے والا زلزلہ عملی ثبوت ہے کہ پاکستانی ریاست نے اس قدرتی آفت کو اپنے مفادات کی خاطر استعمال کرنے کیہر ممکن جدوجہد کی اور اسی زلزلے کے بعد آواران میں بلا تفریق فوجی آپریشن کا آغاز ہوا جس سے عام عوام شدید متاثر ہوئی اورعلاقے میں سیاسی سرگرمیوں پر قدغن عائد کی گئی۔
انھوں نے مزید کہا کہ رواں سال ہی ڈیرہ بگٹی میں پانی کی کمی کے باعث کئی وبائی امراض نے جنم لے کر ہزاروں افراد کو متاثر کیااور درجنوں قیمتی انسانوں کوموت کے آغوش میں اتارا۔ اور اب بدترین ریاستی انتظامات کے سبب بلوچ عوام ڈیرہ غازی خانسے لیکر لسبیلہ تک سیلاب کی لپیٹ میں ہیں اور لاکھوں انسانی زندگیاں خطرے میں ہیں جبکہ سینکڑوں انسان اپنی زندگیاں کھو چکےہیں۔ دوسری جانب بلوچ عوام اپنے آبائی علاقوں سے نقل مکانی کرکے مہاجرین کی زندگی پر مجبور ہے۔ اس وقت ریاست نےبلوچ علاقوں میں غیر اعلانیہ تمام قسم کے عالمی فلاحوں اداروں کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کی ہوئی ہے تاکہ عوام بھوک ، پیاس اوربے گھری کے باعث سیلابی ریلوں میں بہہ جائیں۔
اپنے بیان کے آخر میں انھوں نے کہا کہ پاکستان بلوچ قوم کو صفحہ ہستی سے مٹا کر بلوچ سرزمین پر مکمل قبضہ گیریت براجمان رکھناچاہتی ہے اور اجتماعی نسل کشی کے اس عمل کو عملی جامہ پہنانے کےلیے ریاست نہ صرف بلوچ عوام کو جبری طور پر لاپتہکرتے ہوئے مسخ شدہ لاشیں پھینک رہی ہے یا بیچ چوراہے پر گولیوں سے چھلنی کر رہی ہے بلکہ قدرتی آفات اور وبائی امراض کو بطور مہلک ہتھیار استعمال کرتے ہوئے اس عمل میں وقت کے ساتھ تیزی اور شدت لا رہی ہے۔ قتل عام کے اس تسلسل پراگر نظر دوڑائی جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ بلوچستان میں ایک انسانی بحران جیسا ماحول پیدا ہو چکا ہے جو کہ نہایت ہی المناکہے۔ اقوام عالم اور عالمی اداروں کو حالات کا فوری ادراک رکھتے ہوئے بلوچستان کو جنگ زدہ اور آفت زدہ قرار دیکر فوریمداخلت کرنی چاہیے اور پاکستان کو انسانی حقوق کی پامالیوں پر جوابدہ کی جائے۔