پیرس (ہمگام نیوز) فرانس میں مظاہروں کی چوتھی رات بھی پرتشدد واقعات اور لوٹ مار کی گئی جبکہ پولیس نے 1300 سے زیادہ مظاہرین کو گرفتار کر لیا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ہفتے کو اس نوجوان کی آخری رسومات ادا کی گئیں جسے پولیس نے ٹریفک کا اشارہ توڑنے پر گولی مار کر قتل کر دیا تھا۔
حکومت کا کہنا ہے گذشتہ راتوں کے مقابلے میں جمعے کی رات تشدد ’کم ‘ ہوا لیکن وزارت داخلہ نے اب بھی ملک بھر میں ایک رات میں 1311 گرفتاریوں کی اطلاع دی ہے۔
منگل کو شروع ہونے والے مظاہروں کے بعد سے یہ کسی بھی رات کی سب سے زیادہ گرفتاریاں تھیں۔ مظاہروں کا آغاز پولیس کی گولی سے 17 سالہ ناہیل ایم کی موت کے بعد ہوا۔
اے ایف پی کے ایک رپورٹر نے بتایا کہ دارالحکومت پیرس کے مضافاتی علاقے نان تیر میں نوجوان کی آخری رسومات کا آغاز ہوا جہاں وہ مقیم تھے۔
کشیدہ ماحول میں مقامی قبرستان میں لوگ بڑی تعداد میں جمع ہو گئے۔ ہفتے کی صبح جاری ہونے والے وزارت داخلہ کے عبوری اعدادوشمار کے مطابق رات بھر میں 1350 گاڑیوں اور 234 عمارتوں کو نذر آتش کیا گیا۔
عوامی مقامات پر آگ لگانے کے 2560 واقعات ہوئے۔ وزارت نے یہ بھی کہا کہ پولیس یا نیم فوجی فورس کے 79 اہلکار زخمی ہوئے۔
فرانس کی حکومت نے ایک الجزائری نژاد نوجوان کی پولیس فائرنگ سے قتل کے بعد چار روز سے جاری پرتشدد احتجاج پر قابو پانے کے لیے ملک کے مختلف شہروں میں 45 ہزار پولیس اہلکار اور بکتر بند گاڑیاں تعینات کر رکھی ہیں۔
اہلکاروں کی یہ تعداد احتجاج کے آغاز کے بعد سے کسی بھی ایک رات کے دوران تعینات کی گئی سب سے زیادہ تعداد ہے۔
پولیس کو ہلکی بکتر بند گاڑیوں اور ایلیٹ پولیس یونٹوں کی مدد بھی حاصل تھی۔
پولیس مارسیائی، لیوں اور گرینوبل کے شہروں میں لوٹ مار کو روکنے میں ناکام رہی۔ ان فسادیوں نے جن میں اکثر نے ہڈ پہن رکھے تھے، دکانوں میں گھس کر لوٹ مار کی۔
فرانس میں گذشتہ چار روز سے جاری احتجاجی لہر کے دوران صدر ایمانوئل میکروں کی ایک کنسرٹ میں شرکت کی تصاویر سامنے آنے کے بعد ان پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق تشدد کی اس لہر کے دوران سینکڑوں گاڑیوں اور عمارتوں کو جلایا جا چکا ہے جبکہ کئی سٹورز بھی لوٹ لیے گئے ہیں۔
فرانسیسی صدر میکروں کے دور میں 2018 کے دوران ہونے والے احتجاج کے بعد اب تک کا سب سے بڑا بحران ہے۔
فرانسیسی پولیس نے جمعرات کی رات ایک بیان میں کہا تھا کہ تعینات افسران کو مارسیل، لیون، پاؤ، ٹولوز اور للی میں احتجاج کے دوران مختلف واقعات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
اس واقعے نے فرانس کے بڑے شہروں کے ارد گرد کم آمدنی والے، نسلی طور پر مخلوط مضافاتی علاقوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف تشدد اور نسل پرستی کی دیرینہ شکایات کو جنم دیا ہے۔
ناہیل ایم نامی نوجوان کو منگل (27 جون) کی صبح ٹریفک اشارے پر رکنے میں ناکامی پر گولی مار دی گئی تھی۔
ناہیل مرسیڈیز اے ایم جی پر سوار تھے اور جب انہوں نے اشارے کے باوجود گاڑی آگے بڑھائی تو ایک پولیس اہلکار نے قریب سے ڈرائیور سائیڈ پر فائرنگ کی، جس کے بعد بائیں بازو اور سینے میں لگنے والی ایک گولی سے ان کی موت ہو گئی۔
پولیس افسر کے وکیل کے مطابق: ’انہوں نے ڈرائیور کی ٹانگ کا نشانہ لیا تھا لیکن وہ ٹکرا گئے، جس کی وجہ سے گولی سینے کی طرف لگی۔‘
وکیل کا موقف ہے کہ ’ان کے موکل کی حراست مظاہرے پرسکون رکھنے کی کوشش کے لیے استعمال کی جا رہی ہے۔‘
فرانسیس صدر میکرون نے بدھ کو دیے گئے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’فائرنگ ناقابل معافی ہے۔‘ انہوں نے فائرنگ کے بعد پھیلنے والی بدامنی کی بھی مذمت کی تھی۔
جمعے کی رات کو مارسیل کے میئر بینوئے پایان نے مرکزی حکومت سے اضافی اہلکار بھیجنے کی درخواست کی۔ اپنی ٹویٹ میں ان کا کہنا تھا کہ ’تشدد اور لوٹ مار کے مناظر ناقابل قبول ہیں۔‘
احتجاج کی اس تازہ لہر کے دوراب اب تک 200 سے زائد پولیس اہلکار بھی زخمی ہو چکے ہیں جبکہ مظاہرین درجنوں دکانوں کو لوٹنے کے علاوہ دو ہزار گاڑیوں کو نذر آتش بھی کر چکے ہیں۔
فرانس میں ہونے والے اس احتجاج نے 2005 میں ہفتوں تک جاری رہنے والی ملک گیر احتجاج کی یاد تازہ کر دی ہے جس کے بعد صدر یاک شیراک نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی تھی۔
2005 کا احتجاج دو نوجوانوں کی کرنٹ لگنے سے اموات کے بعد شروع ہوا تھا جو ایک بجلی گھر میں پولیس سے بچنے کے لیے جا کر چھپے تھے۔