فری بلوچستان موومنٹ نے قومی رہنما حیربیار مری کی سرابراہی میں ایران کے لیے جمہوری عبوری منصوبہ کا جامعہ روڈ میپ پیش کیا ہے ۔ یہ منصوبہ فری بلوچستان موومنٹ نے ایران میں موجود دیگر نسلی گروہوں، جیسے کرد، اہوازی، اور آذری اقوام کے سامنے پیش کیا ہے۔ اس منصوبے کو ان سب نے متفقہ طور پر منظور کر لیا ہے۔ فی الحال، یہ واحد منصوبہ ہے جس پر وسیع پیمانے پر تمام غیرفارسی اقوام نے اتفاق کیا ہے۔
موجودہ ایرانی تھیوکریٹک (مذہبی) حکومت کو فارسیوں اور غیر فارسیوں دونوں کی طرف سے عوامی مزاحمت کا سامنا ہے۔ کردستان اور بلوچستان جیسے علاقوں میں موجود مسلح قومی مزاحمتی گروہ حکومت کا تختہ الٹنے اور اپنی آزادی دوبارہ حاصل کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ لیکن تصور کریں کہ اگر حکومت آج گر جائے تو اس کے بعد کیا ہوگا؟
کیا بلوچ، کرد، عرب، اور ترک ملا رجیم کے بعد بھی ایران کے ساتھ تنازعے میں الجھ جائیں گے؟ کیا نئی حکومت بلوچستان، کردستان، الاحواز، اور ترک آذربائیجان میں آزادی کی عوامی تحریکوں کو دبانے کے لیے فوجی طاقت کا استعمال کرے گی؟کیا ایران دوبارہ ایک طویل مدتی تنازعے میں الجھ جائے گا؟ کیا فارسی ، غیر فارسی علاقوں میں نسلی تطہیر کرتے ہوئے وہاں فارسیوں کی آبادکاری کریں گے ؟”
اس مسئلے کو حل کرنے اور ایران میں داخلی تنازعے سے بچنے کا بہترین راستہ جمہوری عبوری منصوبہ ہے۔ منصوبے کے تفاصیل درج ہیں:
ایران کے لیے جمہوری عبوری منصوبہ کا مکمل متن:
تعارف
ایران، جسے مغربی دنیا میں 1935 تک فارس یا فارسی سلطنت کے نام سے جانا جاتا تھا، ایک جدید نوآبادیاتی جغرافیائی و سیاسی تشکیل ہے۔ اس کی موجودہ سرحدوں میں فارس، بلوچ، کرد، ترک، عرب، اور دیگر تاریخی اقوام کے علاقے شامل ہیں۔ “ایرانی” اور “فارسی” کے اصطلاحات کا اکثر مترادف کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، مگر علمِ بشریات کے مطابق، ایرانی قومیت اور ایرانی لوگوں کے بطور نسلی-لسانی گروہ کے مختلف تشریحات ہیں۔
جدید ایرانی اقوام میں بلوچ، کرد، لور، مازندرانی، اوسیٹین، تات، تاجک، تالش، پشتون، پامیری، فارسی، یغنوبی، وخی، اور گیلک شامل ہیں۔ یہ اقوام ایرانی سطح مرتفع (Iranian plateau)پر آباد ہیں، جو ایک جغرافیائی و سیاسی خطہ ہے اور جدید افغانستان، آذربائیجان، ایران، عراق (عراقی کردستان)، پاکستان (خیبر پختونخوا اور مقبوضہ بلوچستان) اور ترکمانستان کے کچھ حصوں پر مشتمل ہے۔
ایران/فارس
تاریخی طور پر، فارس قدیم فارسی سلطنت پر حکومت کرتے رہے، یہاں تک کہ سکندر اعظم نے ان کو شکست دے کر فتح کر لیا۔ سکندر کی وفات کے بعد، اس کی سلطنت اس کے جرنیلوں کےحکمرانی میں آ گئی۔ بعد ازاں، قدیم دور میں مختلف فارسی اور غیر فارسی خاندانوں نے اس خطے پر حکومت کی۔ تاہم، عربوں کی فتح کے بعد، یہ مسلسل غیر فارسی حکمرانوں کے زیرِ اثر رہا، یہاں تک کہ 20ویں صدی کے اوائل میں ایک فوجی افسر رضا میرپنج نے برطانوی حمایت کے ساتھ اقتدار پر قبضہ کیا اور قاجار سلطنت کو تحلیل کر دیا، جو کہ ایک ترک خاندان کی حکومت تھی۔
رضا میرپنج، جو بعد میں رضا پہلوی کہلایا، نے مغربی طاقتوں کی مدد سے موجودہ ایران کو مرکزیت دی اور غیر فارسی اقوام کی خودمختاری اور آزادی کو دبا دیا۔ رضا پہلوی نے فارسی قوم پرستی کو فروغ دیا اور دعویٰ کیا کہ یہ قدیم فارسی سلطنت کا تسلسل ہے۔ رضا اور اس کے جانشین محمد رضا نے موجودہ ایران میں مرکزیت Centralization))اور فارسیانے (Persianisation) کی پالیسیاں اپنائیں۔ ان پالیسیوں کا نتیجہ شہری بدامنی، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، اور سیاسی جبر کی صورت میں برآمد ہوا، جو بالآخر ایک انقلاب پر منتج ہوا جسے شیعہ ملاؤں نے اپنے قبضے میں لے لیا، کیونکہ اس وقت مذہبی گروہ سیاسی مخالفین کے مقابلے میں زیادہ منظم تھے۔
سال 1979 کے بعد سے، ایرانی ملا ایران پر حکومت کر رہے ہیں۔ یہ لوگ مذہبی انتہا پسند ہونے کے باوجود پہلوی خاندان کی طرح قوم پرست ہیں۔ انہوں نے غیر فارسی اقوام کے خلاف فارسیانے کی پالیسیوں کو جاری رکھا اور بلوچ، عرب، ترک، اور کرد اقوام کی نسلی تطہیر میں ملوث رہے۔
ایران جدید دور میں کبھی ایک واحد ملک نہیں رہا۔ ایران کا اتحاد ہمیشہ طاقت کے زور پر قائم کیا گیا، سامراجی مقاصد کے تحت جو فارسیوں کو نہ صرف فارسی سرزمین بلکہ ایران کے ان تمام علاقوں کا حکمران تصور کرتے تھے جو تاریخی طور پر مختلف اقوام کا وطن رہی ہیں۔ سامراج کا دور بہت پہلے ختم ہو چکا ہے۔ فارسیوں کے غیر جمہوری تجربے کے بدولت ہی آج ملّا اقتدار میں ہیں۔ لہٰذا، ایران کے مسئلے کے کسی بھی طویل مدتی حل کے لیے بنیادی مسئلے کو حل کرنا ہوگا، یعنی اقوام کے دور میں ایک سلطنت کی تشکیل۔
مسئلے کی بنیادی وجہ کا حل
ایران میں بحران کی بنیادی وجہ مختلف اقوام پر ایران کو بطور ملک مسلط کرنا ہے، جن کا اس کا حصہ بننے کا ارادہ نہیں، یا جن کی اپنی منفرد ریاستوں کی تاریخ ہے، یا جو ماضی کی ناانصافیوں کی وجہ سے محسوس کرتے ہیں کہ وہ آزاد اقوام بنے بغیر ترقی یا کامیابی حاصل نہیں کر سکتے، اپنے قوانین خود نہیں بنا سکتے۔
مثال کے طور پر، کچھ فارسی جمہوریہ (Republic) کے حق میں ہیں، جبکہ دیگر بادشاہت کی حمایت کرتے ہیں۔ اگر فارسیوں کی اکثریت بادشاہت کا انتخاب کرے تو بلوچوں، کردوں، عربوں، اور ترکوں کو کیوں مجبور کیا جائے کہ وہ ایک فارسی بادشاہ کو اپنا حکمران تسلیم کریں؟ 1979 کے انقلاب کے دوران فارسی اکثریت نے خمینی کی حمایت کی اور اس طرح مذہبی حکومت کو جائز قرار دیا۔ ایران کے بنیادی مسائل میں سے ایک یہ ہے کہ آیا فارس دیگر اقوام پر اپنی مرضی اور سیاسی فیصلے مسلط کریں، یا صرف اپنی قوم کے فیصلوں اور سیاسی ذمہ داریوں کے پابند ہوں۔ اگر ایک قوم کا دوسری قوم پر اپنی مرضی مسلط کرنا غلط ہے تو غیر فارسی اقوام کو فارسیوں کے فیصلوں کے نتائج کیوں بھگتنا پڑیں، جیسا کہ رضا شاہ کے 1921 کے بغاوت یا 1979 کے انقلاب میں ہوا، جو غیر فارسی اقوام کے لیے تباہی اور بدحالی کا باعث بنی۔
اسی طرح بلوچ، کرد، ترک، عرب اور دیگر اقوام کو بھی اپنے قومی حقِ خودارادیت کا حق حاصل ہونا چاہیے اور انہیں اپنے فیصلوں اور غلطیوں کی ذمہ داری آزاد اقوام کی حیثیت سے خود اٹھانی چاہیے۔ زیادہ تر جغرافیائی اقوام، یعنی وہ جو اپنے آبائی علاقے میں آباد ہیں اور اپنے تاریخی علاقوں میں اکثریت میں ہیں، اپنی ریاستیں قائم کرنے کی خواہش رکھتی ہیں۔ یہ اقوام آزاد ریاستوں جیسے بلوچستان، کردستان، ترک آذربائیجان، اور الاحواز کے قیام کی جدوجہد کر رہی ہیں۔
جمہوری حل ان اقوام کو ان کے قومی حقوق دینے کے ساتھ ساتھ ان کی آزادی کی امنگوں کا احترام کرے گا۔ لیکن یہ حقوق ایک مقررہ مدت کے اندر نافذ کیے جانے چاہییں تاکہ افراتفری، بدامنی اور عدم استحکام سے بچا جا سکے۔ اس طریقے سے ایران میں غیر فارسی اقوام کے قومی مسائل کو جمہوری اصولوں اور طریقوں کے تحت حل کرنے کی راہ ہموار ہوگی۔
جمہوری راستے سے قومی آزادی کا حل
موجودہ ایرانی تھیوکریٹک (مذہبی) حکومت کو فارسیوں اور غیر فارسیوں دونوں کی طرف سے عوامی مزاحمت کا سامنا ہے۔ کردستان اور بلوچستان جیسے علاقوں میں موجود مسلح قومی مزاحمتی گروہ حکومت کا تختہ الٹنے اور اپنی آزادی دوبارہ حاصل کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ لیکن تصور کریں کہ اگر حکومت آج گر جائے تو اس کے بعد کیا ہوگا؟
کیا بلوچ، کرد، عرب، اور ترک ملا رجیم کے بعد بھی ایران کے ساتھ تنازعے میں الجھ جائیں گے؟ کیا نئی حکومت بلوچستان، کردستان، الاحواز، اور ترک آذربائیجان میں آزادی کی عوامی تحریکوں کو دبانے کے لیے فوجی طاقت کا استعمال کرے گی؟کیا ایران دوبارہ ایک طویل مدتی تنازعے میں الجھ جائے گا؟ کیا فارسی ، غیر فارسی علاقوں میں نسلی تطہیر کرتے ہوئے وہاں فارسیوں کی آبادکاری کریں گے؟
ایران میں اس مسئلے کا بہترین حل اور داخلی تنازعے سے بچنے کا راستہ ایک جمہوری عبوری منصوبے کے ذریعے ممکن ہے۔ اس منصوبے کے تحت، ایرانی/فارسی قبضے میں رہنے والی اقوام فوری طور پر علیحدگی کا اعلان نہیں کریں گی، اور نہ ہی فارسیوں کو پہلوی خاندان کی طرح ایران پر غلبہ حاصل کرنے کی اجازت دی جائے گی۔ یہ مفاہمت تمام فریقین کے لیے فائدہ مند ہوگی اور امن، جمہوریت، آزادی، اور قومی آزادی کے حصول کا راستہ ہموار کرے گی۔
یہ جمہوری عبوری منصوبہ ایک معاہدے کی صورت میں ہوگا جس کے لیے بین الاقوامی ضامن موجود ہوں گے۔ اگر فارس یا کوئی اور گروہ اس منصوبے پر عملدرآمد میں رکاوٹ ڈالے تو غیر فارسی اقوام کو یکطرفہ آزادی کا قانونی حق حاصل ہوگا۔
پہلا مرحلہ: کونسل کا قیام اور اختیارات کی منتقلی
عبوری کونسل ایک انتظامی ادارے کے طور پر قائم کی جائے گی جو ایران کی عبوری حکومت کے طور پر کام کرے گی۔ اس کا مقصد موجودہ حکومت کو گرانا، مابعد ملا رجیم ایران کو چلانا، اور عبوری منصوبے پر عملدرآمد کرنا ہوگا۔ یہ کونسل اپوزیشن کے اکثریتی گروہوں کے درمیان معاہدے کے ذریعے تشکیل دی جائے گی، جو جغرافیائی بنیادوں پر اقوام اور فارسیوں کی بھی نمائندگی کرےگی۔
کونسل کا کوئی بھی فیصلہ، قرارداد، یا منصوبہ جو قومی حق خودارادیت، قومی آزادی، ریاستی خودمختاری کے حق، یا بین الاقوامی معاہدہ برائے شہری و سیاسی حقوق کے اصولوں کے منافی ہو، غیر قانونی اور کالعدم سمجھا جائے گا۔ عبوری کونسل کے قیام کی بنیادی شرط یہی ہوگی کہ وہ عبوری منصوبے پر عملدرآمد کو یقینی بنائے اور اقوام کو جمہوری طریقے سے اپنے قومی مستقبل کا تعین کرنے کا موقع فراہم کرے۔
کونسل میں ہر جغرافیائی قوم کو مساوی نمائندگی دی جائے گی، خواہ ان کی آبادی کا حجم کچھ بھی ہو۔ نمائندے ان سیاسی تحریکوں کے ذریعے مقرر کیے جائیں گے جو موجودہ ملا حکومت کو گرانے کے لیے کوشاں ہیں۔ تمام اقوام ایران کو آزاد کرانے اورموجودہ حکومت کو ختم کرنے کے لیے مسلح اور سیاسی مزاحمت کا حصہ بن کر مشترکہ جدوجہد کریں گی۔
ہر تاریخی لحاظ سے علاقہ دار قوم اپنی سرزمین کو ملا حکومت اور اس کی افواج سے آزاد کرانے کی ذمہ داری خود اٹھائے گی۔ عبوری کونسل ان اقوام کے اتحاد سے وجود میں آئے گی جو موجودہ حکومت کو ختم کرنے اور جمہوری نظام قائم کرنے کے لیے مل کر کام کریں گی۔
مثالی طور پر (ideally) ، عبوری کونسل حکومت کے خاتمے سے پہلے قائم کی جانی چاہیے۔ یہ کونسل سوئس فیڈرل کونسل کے ماڈل پر کام کرے گی، جس میں تمام اراکین اجتماعی طور پر ریاست اور ایران کی عبوری حکومت کے سربراہ کے طور پر خدمات انجام دیں گے۔ عبوری دور میں انتظامی اختیارات تمام اقوام کے درمیان مساوی طور پر تقسیم ہوں گے، اور تمام اقتصادی، سیاسی، اور فوجی فیصلے شامل اقوام کی متفقہ رضامندی سے کیے جائیں گے۔
ایران کی موجودہ حکومت 18 وزارتوں پر مشتمل ہے۔ عبوری دور میں ان وزارتوں میں سے بیشتر میں جامع اصلاحات کی جائیں گی اور ان کے اختیارات جزوی طور پر صوبوں کو منتقل کیے جائیں گے۔ عبوری کونسل صرف ان وزارتوں کو مرکزی کنٹرول میں رکھے گی جو ریاست کے بنیادی انتظامی امور کے لیے ضروری ہوں گی۔ ان میں دفاع، توانائی، معیشت، انصاف، پٹرولیم، اور خارجہ امور شامل ہیں، جو تیسرے مرحلے کی تکمیل تک مرکزی کنٹرول میں رہیں گی۔
صوبائی صلاحیت سازی کو فروغ دینے کے لیے، تمام وزارتیں سوائے خارجہ امور کے اپنے صوبائی دفاتر قائم کریں گی تاکہ وفاقی، کنفیڈرل، یا آزادی کی جانب ہموار منتقلی ممکن ہو سکے۔ وزارت خارجہ بین الاقوامی تعاون کو فروغ دینے اور عبوری منصوبے کے نفاذ میں کونسل کی مدد پر توجہ مرکوز کرے گی۔
تیسرے مرحلے کے بعد، صوبائی حکومتوں کو اپنے غیر ملکی نمائندہ دفاتر قائم کرنے کا اختیار حاصل ہوگا، جیسا کہ مغربی ممالک میں اسکاٹ لینڈ، کیوبیک، اور کیٹالونیا جیسے خودمختار علاقوں میں موجود ہے۔
انتظامی اختیارات حاصل کرنے کے فوراً بعد، عبوری کونسل اختیارات کی فوری منتقلی کے عمل کا آغاز کرے گی۔ یہ عمل صوبوں کو اپنی آئین سازی میں مدد فراہم کرے گا، جو تیسرے مرحلے کے دوران نافذ کی جائے گی۔ صوبائی گورنر اور اہم شعبوں کے سربراہوں کو 36 ماہ کی مدت کے لیے عبوری کونسل اور تحریکوں کے نمائندوں کے ذریعے مشترکہ طور پر مقرر کیا جائے گا۔
فی الحال، ایران ایک انتہائی مرکزیت پسند ریاست ہے، جہاں تمام بڑے فیصلے تہران میں کیے جاتے ہیں۔ عبوری کونسل گورننس کے عمل کو غیر مرکزیت دے کر زیادہ تر مرکزی وزارتوں کو تہران سے صوبوں میں منتقل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ہر شعبے کی سربراہی ایک صوبائی وزیر کرے گا، جبکہ صوبے کے سربراہ کو گورنر کے طور پر مقرر کیا جائے گا۔ گورنر صوبے کا انتظامی اختیار رکھے گا، اور تمام شعبوں کے سربراہان صوبائی کابینہ تشکیل دیں گے۔
موجودہ صوبوں کو درج ذیل شعبوں کے انتظامی اختیارات دیے جائیں گے: • زراعت، جنگلات، اور ماہی گیری • سرحدی تحفظ • تعلیم • ماحولیات • ایمرجنسی خدمات • صحت اور سماجی دیکھ بھال • رہائش • قانون نافذ کرنے والے ادارے • مقامی حکومت • شاہراہیں اور نقل و حمل • صفائی ستھرائی اور فضلے کا انتظام
دوسرا مرحلہ: ایران کی تنظیمِ نو اندرونی سرحدوں کی نئی تشکیل اور اکائیوں کا قیام
حکومت کے خاتمے کے بعد اندرونی سرحدوں کے مسئلے پر توجہ دی جائے گی۔ تاریخی دستاویزات، نقشے، آبادی کے اعداد و شمار، اور دیگر متعلقہ عوامل کی بنیاد پر ایران کی اندرونی سرحدوں کو 36 ماہ کے اندر دوبارہ ترتیب دیا جائے گا۔ ایران میں موجودہ صوبائی اور انتظامی تقسیم غیر فارسی اقوام کے علاقوں کو تقسیم کرنے اور انہیں فارسی اکثریتی صوبوں میں ضم کرنے کے لیے جان بوجھ کر ترتیب دی گئی تھی، جو گزشتہ ایک صدی کے دوران گہری منصوبہ بندی کے تحت کی گئی حدبندی کی حکمت عملی تھی۔
کسی بھی جمہوری حل کے لیے، خواہ وہ وفاقی نظام ہو، کنفیڈرل نظام ہو، یا آزادی، کے لیے اندرونی سرحدوں کا مسئلہ حل کرنا اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ اس مسئلے کو حل کیے بغیر ایران میں کوئی جمہوری حل مؤثر طریقے سے نافذ نہیں کیا جا سکتا۔ اگر صوبائی سرحدیں متنازع رہیں تو وفاقیت کمزور پڑ جائے گی، اور علاقوں کی تقسیم اور ان کے فارسی خطوں میں انضمام سے جڑی تاریخی ناانصافیاں جوں کی توں برقرار رہیں گی۔کنفیڈریشن اس صورت میں ناممکن ہو گی اگر شریک اکائیاں تاریخی وطنوں پر مبنی نہ ہوں، جس کے نتیجے میں غیر فارسی قوموں کی بڑی تعداد فارسی حکمرانی کے ماتحت رہ جائے گی۔ اس اہم مسئلے کو نظرانداز کرنا خطے کو مسلسل بےچینی، نسلی کشیدگی، اور طویل تنازعات کی طرف دھکیل سکتی ہے۔
سب سے پہلے، عبوری کونسل غیر فارسی اقوام کو متاثر کرنے والی جغرافیائی حدود کے مسئلے کو ترجیح دے گی۔ 36 ماہ کے اندر ان علاقوں کو ان اقوام کے سپرد کیا جائے گا، جنہیں استعماری دور میں فارسی اکثریتی علاقوں میں ضم کیا گیا تھا۔ ایران کے صوبوں کو جغرافیائی طور پر خود مختار قومی خطوں میں سیاسی طور پر از سر نو منظم کیا جائے گا، تاکہ ہر قوم کے علاقے کو ایک واحد خطے میں متحد کیا جا سکے۔
یہ خطے عبوری ایران کے جزو کے طور پر تسلیم کیے جائیں گے، اور عبوری دور کے دوران ہر خطہ ایک مساوی اکائی کے طور پر تسلیم کیا جائے گا۔ یہ اکائیاں جغرافیائی طور پر متعین اقوام پر مبنی ہوں گی، جیسے عربستان -الاحواز، آذربائیجان، بلوچستان، گیلان، کردستان، فارس اور دیگر۔
کونسل ہر خطے کو اپنے قانونی، مالیاتی، سیاسی، اور فوجی ادارے قائم کرنے میں مدد فراہم کرے گی اور آزادانہ و منصفانہ انتخابات کے انعقاد کے لیے بین الاقوامی نگرانی میں معاونت کرے گی۔ ہر خطہ اپنا آئین، عملیاتی شعبہ، پارلیمنٹ، اور انتظامی ڈھانچہ قائم کرے گا۔
اگر 36 ماہ کے اندر کچھ علاقوں پر سرحدی تنازعات حل نہ ہو سکیں، تو کونسل مخلوط قومی آبادی والے ان متنازعہ علاقوں کا نظم و نسق سنبھالے گی تاکہ استحکام، امن، اور ہمسایہ خطوں کے درمیان مثبت تعلقات کو یقینی بنایا جا سکے۔ کونسل، جو تمام قومیتوں کی نمائندگی کرے گی، ان علاقوں پر اس وقت تک اختیار رکھے گی جب تک کہ مسئلہ ریزیلیوشن کمیشن کے ذریعے حل نہ ہو جائے۔
اگر کمیشن 12 ماہ کے اندر تنازعہ حل کرنے میں ناکام رہے تو ملوث فریقین کو عدم جارحیت معاہدوں پر دستخط کرنے ہونگے۔ اس کے بعد کونسل متنازعہ علاقے کا انتظام کسی غیرجانبدار ادارے یا اداروں کو منتقل کرے گی۔ دعوے دار فریقین اس منتقلی کو روک نہیں سکیں گے، لیکن انہیں ممکنہ منتظم یا منتظمین پر باہمی اتفاق کرنا ہوگا۔
غیر جانبدار انتظامیہ کے دوران تنازعہ کسی بین الاقوامی عدالت یا ثالثی ٹریبونل کے سپرد کیا جائے گا۔ غیر جانبدار ادارے اس وقت تک علاقے کا انتظام سنبھالے رکھیں گے جب تک کہ حتمی فیصلہ نہیں آ جاتا۔ اس کے بعد علاقے کا اختیار عدالت یا ٹریبونل کے فیصلے کے مطابق متعلقہ خطے یا خطوں کو منتقل کر دیا جائے گا۔
تیسرا مرحلہ: خود مختار اکائیاں اور انتخابات
جب سرحدی تنازعات حل ہو جائیں اور ایران کو خود مختار اکائیوں میں سیاسی طور پر از سر نو منظم کیا جائے، تو عبوری کونسل بین الاقوامی برادری کی مدد اور نگرانی کے ساتھ ایک غیر جانبدار الیکشن کمیشن قائم کرے گی۔ یہ الیکشن کمیشن جس کی حمایت اور نگرانی بین الاقوامی برادری بھی کرے گی ، علاقائی پارلیمانوں اور انتظامیہ کے لیے آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے منصوبے، تیاری، اور انعقاد کا ذمہ دار ہوگا۔
عبوری دور میں، ہر خود مختار خطہ اپنے آئین، انتظامیہ اور قانون ساز ادارے کے ساتھ خود مختار طور پر کام کرے گا۔ خطے کے آئین میں انتخاب کا طریقہ، قانون سازوں کی مدت، قانون ساز اداروں کے اختیارات، انتظامیہ کے اختیارات، اور علاقائی گورننس کے لیے دیگر سیاسی ڈھانچے کی وضاحت ہوگی۔
چوتھا مرحلہ: آزادی، کنفیڈریشن، یا فیڈریشن
جب ایران کو تاریخی قومی سرحدوں پر مبنی خودمختار اکائیوں میں دوبارہ منظم کیا جائے گا، اور ان اکائیوں کو اپنے اداروں اور آئین کے ساتھ بااختیار بنا دیا جائے گا، تب چوتھے مرحلے کا آغاز ہوگا۔
پہلا ریفرنڈم
تیسرے مرحلے کی تکمیل کے 24 ماہ بعد، فارس کے علاوہ ہر خطہ یہ فیصلہ کرنے کے لیے ایک ریفرنڈم منعقد کرے گا کہ آیا وہ ایک آزاد ریاست بننا چاہتا ہے یا ایران/فارس کے ساتھ سیاسی اتحاد میں رہنا چاہتا ہے۔ ریفرنڈم کا سوال واضح طور پر مرتب کیا جائے گا، اور ہر خطے کے مستقل رہائشیوں اور مقامی باشندوں کو دو غیر مبہم انتخاب دیے جائیں گے۔ ہر خطے میں الگ ریفرنڈم منعقد ہوگا، تاکہ وہ اپنا سیاسی مستقبل آزادانہ طور پر طے کر سکیں۔
تاہم، وہ فارسی جو غیر فارسی اقوام کے علاقوں میں جان بوجھ کر ان خطوں کی آبادیاتی ساخت کو تبدیل کرنے کی پالیسی کے تحت آباد کیے گئے، ان ریفرنڈمز میں ووٹ دینے کے اہل نہیں ہوں گے۔
نتائج کا نفاذ
جو علاقے آزادی کے حق میں ووٹ دیں گے، انہیں خودمختاری دی جائے گی اور ایران کی طرف سے باضابطہ طور پر آزاد ریاستوں کے طور پر تسلیم کیا جائے گا۔ اس کے بعد، مالیات، جائیداد، اور اثاثوں سے متعلق مسائل پر بات چیت کی جائے گی۔ ان مذاکرات میں ایران/فارس اور نئی آزاد خودمختار ریاستوں کے درمیان ریاستی تعلقات کا قیام بھی شامل ہوگا۔
دوسرا ریفرنڈم
پہلے ریفرنڈم کے 12 ماہ بعد دوسرا ریفرنڈم منعقد ہوگا۔ اس ووٹ میں، خودمختار خطے جنہوں نے آزادی کو مسترد کیا اور ایران کے ساتھ سیاسی اتحاد کا انتخاب کیا، جمہوری عمل کے ذریعے ملک کے سیاسی نظام کا تعین کریں گے۔ فارس کی خودمختار ریاست بھی اس ریفرنڈم میں شریک ہوگی۔
سیاسی اتحاد کا انتخاب کرنے والے ہر خطے کی آبادی فیصلہ کرے گی کہ آیا ایران کو وفاقی (Federal) یا کنفیڈرل (Confederal) نظام اپنانا چاہیے۔
نتیجہ نافذ کرنے کا عمل
دوسرے ریفرنڈم کے بعد، ایک آئینی کمیشن بین الاقوامی نگرانی کے تحت قائم کیا جائے گا۔ وہ تمام سیاسی جماعتیں، جن کے خطوں نے ایران کے ساتھ اتحاد کا انتخاب کیا ہوگا، نئے آئین کی تشکیل میں شریک ہوں گی۔ آئین ریفرنڈم کے نتائج کی بنیاد پر تیار کیا جائے گا۔
اگر اکثریت وفاقیت کے حق میں ووٹ دے، تو کمیشن وفاقی آئین کا مسودہ تیار کرے گا۔ اس کے برعکس، اگر اکثریت کنفیڈریشن کے حق میں ووٹ دے، تو کمیشن کنفیڈرل آئین کا مسودہ تیار کرے گا۔آئین کے مسودے کی تیاری کا عمل شفاف ہونا ضروری ہے، جس میں عوام کی شرکت اور قانونِ آئین کے بین الاقوامی ماہرین سے مشاورت شامل ہوگی۔ نئے آئین کے حتمی مسودے کا ان تمام خطوں کی آئینی اسمبلیوں سے منظور ہونا ضروری قرار پائے گا جنہوں نے ایران کے ساتھ سیاسی اتحاد کے لیے ووٹ دیا۔
ایران اور نئی آزاد ریاستوں میں قومی اقلیتوں کا تحفظ
ایران کی اندرونی تنظیمِ نو اور خودمختار قومی خطوں کے قیام کے بعد بھی قومی اقلیتوں سے متعلق چیلنجز موجود رہیں گے۔ ہر خودمختار قوم میں ناگزیر طور پر دیگر اقوام کی چھوٹی آبادی شامل ہوگی، جنہیں قومی اقلیتوں کا درجہ حاصل ہوگا۔ یہ وہ گروہ ہوں گے جو اپنی تاریخی سرزمینوں سے باہر رہ رہے ہوں گے، خواہ وہ نئی آزاد ریاستوں میں ہوں یا ایران کے اندر۔
یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ سیاسی سرحدوں کی از سرِ نو حد بندی کتنی ہی دانشمندانہ کیوں نہ ہو، نسلی یا قومی اقلیتوں سے متعلق پیچیدگیوں کو مکمل طور پر ختم نہیں کر سکتی۔ تمام فریقین خواہ وہ آزادی کا انتخاب کریں یا ایران کے ساتھ اتحاد میں رہیں کو قومی اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایک معاہدے پر بات چیت اور اتفاق کرنا ہوگا۔
یہ کثیر الجہتی معاہدہ ان کی ثقافت، آزادی اور انسانی و شہری حقوق کے تحفظ کو مدنظر رکھتے ہوئے تیار کیا جائے گا۔ تجویز ہے کہ ایک جامع معاہدہ اور فریم ورک تیار کیا جائے، جو فریم ورک کنونشن فار دی پروٹیکشن آف نیشنل مائناریٹیز کے اصولوں کی بنیاد پر ہو۔
٭٭٭